تسکین مانیر وال میرا استاد میرا دوست
Reading Time: 4 minutesمیں شاید ساتویں جماعت کا طالب علم تھا کہ گورنمنٹ مڈل سکول پنج پیر (صوابی) میں ایک خوش شکل اور نوجوان ٹیچر کا تبادلہ ہوا
پتا چلا کہ ان کا تعلق نواحی گاوں مانیری سے ہے اور وہ ہمارے ایک کلاس فیلو کے خالہ زاد بھائی بھی ہیں .
بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی والدہ ہمارے ہی گاوں کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی ہیں .
اب وہ ہمیں انگریزی اور اردو پڑھانے لگے تھے لیکن کم عمری کے باوجود بھی میں سمجھنے لگا تھا کہ نہ صرف ان کی شخصیت قدرے مختلف ہےبلکہ پڑھانے کا انداز ایک مخصوص دلربائی بھی لئے ہوئے ہے.
سو ان کی قربت کی خواہش بہت رہی لیکن شاگرد کا استاد سے ڈر آڑے آتا رہا .
لیکن کچھ دنوں بعد اسے اپنے ڈیرے میں اپنے بڑے بھائی حاجی محمد صابر کے پاس بیٹھے اور ایک دوسرے کی گالیوں سے تواضع کرتے دیکھا تو میں نے بھی اعتماد پکڑا اور یوں رفتہ رفتہ استاد اور شاگرد کا رشتہ ذاتی تعلق کی طرف بڑھا.
ان دنوں کلاس روم میں بھی تسکین مانیر وال کے ہاتھ میں علی خان، معز اللہ خان مومند عبد الحمید عدم اور شکیل بدایونی وغیرہ کی شاعری کی کوئی کتاب ہوتی .
اور میں بتاتا چلوں کہ یہیں سے مجھے شعر و ادب سے پہلی شناسائی ہوئی.
اب ہم دونوں ہم مزاج ہونے کے سبب استاد شاگرد سے کہیں زیادہ دوست بلکہ جگری یار بنتے گئے . اور یہ رشتہ اس کی آخری سانس تک قائم رہا.
تسکین مانیر وال نے شادی نہیں کی اور ساری عمر محبتیں کرتا رہا.
جن میں سے بعض سربستہ رازوں کا علم صرف مجھے ھے یعنی اس کی” مردانہ ” عشقیات سے تو ایک دنیا واقف ہے لیکن یہ صرف مجھے معلوم ھے کہ نوجوانی کے دنوں میں تسکین کس لڑکی کو دل دے بیٹھے تھے اور اس کی پرانی شاعری میں اس کے خد و خال بھی نمایاں ہیں.
ملائیشیا کی ایک لڑکی ( ڈورین لام ) سے بھی خط و کتابت کے ذریعے ایک زمانے میں اس کا قریبی رابطہ رہا تھا. بلکہ ایک بار تو تسکین کی والدہ مرحومہ نے ایک سادگی کے ساتھ مجھے کہا تھا کہ اس لڑکی کو یہاں بلائیں تا کہ تسکین کی اس سے شادی کروادیں.
تسکین کو قدرت نے ایک طرف کمال کی تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا تھا تو دوسری طرف اس کا مطالعہ بھی غضب کا تھا
لیکن ان خوبیوں کے باوجود بھی وہ ِخوفناک حد تک لا پرواہ اور لا ابالی تھے یہی وجہ تھی کہ عمر بھر نہ صرف شادی نہیں کی بلکہ خطرناک نشے بھی کرنے لگا تھا
جس نے اس کی شاندار شخصیت کو درہم برہم کر کے رکھ دیا تھا.
ایک بار میں اسے پشاور لےکر آیا اور اسے ایک مشہور ڈاکٹر دوست کے پاس یہ کہہ کر داخل کروایا کہ اگر یہ ٹھیک ہوجائیں تو پورے معاشرے کو فائدہ پہنچ جائے گا.
ہسپتال کے تمام سٹاف نے پوری توجہ دی لیکن چند دن بعد بہانے سے نکلا اور گاوں بھاگ گیا
یہ پہلا موقع تھا کہ ہم دونوں کے تعلقات بگڑے لیکن چند ھفتوں بعد کسی نے یہ کہہ کر فون کیا کہ تسکین سے بات کر لیں .
بات ہوئی تو پتہ چلا کہ اباسین آرٹ کونسل میں تسکین مانیر وال کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا ھے اور تسکین کو "حسب توقع” کوئی معلومات نہیں
میں نے پروگرام کے منتظمین اور متعلقہ لوگوں سے رابطہ کیا اور دو دن بعد گاوں جا کر تسکین کو پشاور ساتھ لے آیا اور اگلے دن پروگرام میں لےکر جانے لگا تو ایک معصومیت کے ساتھ کہا کہ پروگرام میں "تم بات کرنا مجھے ڈر لگ رہا ہے”.
تسکین عام حوالے سے کمال کے پشتو شاعر اور مقامی حوالے سے ایک مجلسی اور گپ باز آدمی کی شہرت رکھتے تھے لیکن اس کی شخصیت کا ایک توانا لیکن چھپا ہوا پہلو بھی تھا جس کا عام لوگوں کو علم بھی نہیں اور وہ تھا تسکین کا ایک صوفی ہونا
اس حوالے سے بہت سے واقعات ہیں لیکن مضمون کی تنگی کے پیش نظر ایسا ممکن نہیں.
ایک بار میرے پاس پشاور ٹھہرے تھے رات کو گپ شپ لگاتے بات حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشکلات کی طرف مڑی اور میں نے شعب ابی طالب میں پیش آئے مشکلات اور بھوک کا ذکر کیا تو تسکین اچانک بچوں کی طرح مجھ سے لپٹا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا جسے میں نے بمشکل چپ کروایا.
خدا کے حوالے سے تسکین حد درجہ رومانوی تصورات کا حامل تھا
ایک بار مجھے کہا کہ میں رات کو دیر تک خدا سے لڑتا رہا .
میں نے ڈانٹا تو جواب دیا کہ غصہ ہونے کی کیا بات ہے
لاڈلا بیٹا ہی ناز و نعم کی وجہ سے اکثر ماں کے ساتھ لڑتا ھے اور یہ لڑائی ماں کو بہت اچھی بھی لگتی ہے.
خدا کے ساتھ میرا رویہ بھی تو ناز و نعم کا ہی ہے.
یہ تھا وہ صوفی , فطرت پسند , ملنگ خو اور بے بغض شاعر تسکین مانیر وال جس کی ساری زندگی ایک سادہ لوحی کے سبب خود سے دشمنی میں گزری.
یہ میرے علاقے کا وہ آخری چراغ تھا جو اپنی روشنی بھی خود پیدا کرتا تھا اور اسے گلی گلی بانٹنے بھی نکلتا تھا.
لگ بھگ چالیس سال کی رفاقت ایک بے مہر صبح کو اختتام پذیر ہوئی لیکن ایک بے حس معاشرے اور روبوٹ نما انسانوں کے درمیان وہ حساس اور سادہ لوح دانشور اور شاعر تسکین مانیر وال بہت یاد آتا رہے گا .
خدا کی قسم بہت یاد آتا رہے گا.