وصل کی شب اور اتنی ٹھنڈی؟
Reading Time: 4 minutesآپ کا پتہ نہیں ، ہمیں تو کالج پہنچتے ہی ایسے پر لگے کہ اچانک ہی سکول پڑھنے والے اپنے سے بہت چھوٹے اور حقیر دکھائی دینے لگے، جونیئرز ہاہ .
لولو ہماری گلی میں رہتی تھی اور ان دنوں میٹرک کی طالبہ تھی، اس لئے ہمارے ریڈار کی زد میں نہ آ پائی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میری عدم توجہی اور لاپرواہی کے نتیجے میں ہماری گلی کی عزت نالے کے پار والے محلے کے ہاتھ لگ گئی۔
برسبیل تذکرہ ہم ایسی تمام لڑکیوں کو "لولو” کہا کرتے تھے جو معقول صورت مگر گھامڑ ہوں۔ خیر لڑکیاں تقریباً سبھی ایسی ہوتی ہیں۔ یعنی معقول صورت مگر گھامڑ۔ لیکن Lolos میں اضافی خوبی ان کا مائل بہ فلرٹ اور نتیجتاً سہل الحصول ہونا تھا۔
خیر غنیمت یہ ہوا کہ ہماری گلی کی لولو ہمارے ہی یار کے ساتھ سیٹ ہو گئی۔ ہماری گلی تنگ اور بند تھی، اس میں اجنبیوں کی آمد و رفت کم تھی اور پسند بھی نہیں کی جاتی تھی۔ لولو لوگوں کا گھر گلی کے آخر میں تھا۔ یہ سنگل سٹوری تھا جس کی چھت پر سیڑھیوں سے پرے ایک سٹور نما کمرہ تھا۔ ان دنوں اس میں ان کی اکلوتی بکری رہائش پذیر تھی۔ سیڑھیوں کا دروازہ گھر کی بجائے گلی میں کھلتا تھا۔ اس تزویراتی گہرائی کی بنا پر چھت والا کمرہ ڈیٹ کے لیے انتہائی موزوں تھا۔
تو فلاں رات دس بجے کے بعد کا وقت اس randzevous کیلئے طے پایا۔
ان دنوں ہماری دن بھر کی سرگرمیوں کا اختتام قبرستان میں میٹنگ پر ہوا کرتا تھا۔ نو بجے کے لگ بھگ ہم وہاں اکٹھے ہوئے ۔ یہ اچھی خاصی سردیوں کی راتیں تھیں۔ اس نمونے کے پاس سب جیکٹیں، سویٹرز لنڈے کی تھیں شاید اس وجہ سے، یا پھر ہیروپنتی دکھانے کیلئے، وہ ایسے ہی قمیض کے بٹن کھولے آ بیٹھا۔
اب ایک تو گپوں میں وقت کا پتہ نہیں چلتا دوسرا لولو کا بڑا بھائی گھر دیر سے پہنچا تو وہ بھی اسے میسج کر کے آنے سے منع کرتی رہی۔ یوں ہم ساڑھے گیارہ تک وہیں بیٹھے رہے۔
ہمیں تو مزید بیٹھنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر عاشق صادق کا سردی کے مارے برا حال ہو گیا تھا۔ وہ بیچارہ وقفے وقفے سے کہتا رہا کہ کہیں اور چلتے ہیں مجھے ٹھنڈ لگ رہی، مگر اس کی کسی نے نہ سنی۔
آخر محفل برخاست ہوئی، ہماری گلی کے نکڑ پر پہنچ کر دس پندرہ منٹ مزید الوداعی مذاکرات کے بعد بالآخر ہم دونوں کو الوداع کہا گیا۔
رات کو سیڑھیوں کے دروازے کو تالا لگا دیا جاتا تھا مگر لولو نے چابی اسے پہلے دے دی تھی۔ سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے بھی اس نے کہا کہ مجھے بہت سردی لگ رہی۔ میں نے تسلی دی کہ بیٹا کچھ دیر میں خود ہی دور ہو جائے گی، نہ ہوئی تو مجھے بھی بلا لینا۔ اور خود گھر آ کر سو گیا۔
اگلے دن ہم سب بے چینی سے رات کی بیٹھک کے منتظر تھے کہ اس سے گزشتہ شب کی کارگزاری کا احوال جان پائیں۔ وہ کمبل اوڑھے آیا اور اپنی کہانی کا آغاز اس نے مجھے گالیاں دے کر کیا۔
” اوئے فلاں فلاں، میں آخر تک اس آس میں رہا کہ تو اپنی جیکٹ مجھے ادھار دے دے گا، لیکن کم بخت تجھے ذرا بھی شرم نہیں آئی”
سچ یہ کہ مجھے خیال آیا تھا مگر پچھلی سردیوں میں وہ میری نئی سویٹر ہتھیا چکا تھا تو میں نے رسک لینا مناسب نہیں سمجھا۔
” میری قلفی/قلفہ تو قبرستان میں ہی جم گیا تھا۔ بکری کے دڑبے میں سردی کے ساتھ ساتھ پرائے گھر میں موجودگی کا احساس کپکپاہٹ میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ ہر آہٹ، ہر کھٹکے پر کافی کچھ اچھل کر حلق میں آن اٹکتا تھا۔ لولو اب میسج کا جواب بھی نہیں دے رہی تھی۔ میرا برا حال ہو رہا تھا۔ سردی کم کرنے کیلئے بکری کے گلے میں بانہیں ڈالیں تو وہ بدک کر ممیانے لگی۔ میں گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا”
چوکڑی مار کر بیٹھا تو ٹھنڈ سے تشریف بجنے لگی۔ دیوار سے ٹیک لگائی تو کمر تھرتھرانے لگی۔ آخر اکڑوں ہو کر گویا انڈین سیٹ پہ بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگا کر لولو کو گالیاں بکنے لگا۔
لولو مزید آدھے گھنٹے بعد آئی۔ موبائل کی روشنی میں دیکھا کہ اس نے ایکسٹرا سرمہ دنداسہ لپ اسٹک مار رکھی تھی اور فل موڈ میں دکھائی دیتی تھی۔ مگر یار تمہارے کی اس وقت بندوق ہوئی پڑی تھی۔
فل بتیسی بج رہی تھی، کپکپاہٹ سے ہلکے ہلکے جھٹکے لگ رہے تھے گویا ٹرین کے ٹوائلٹ میں بیٹھا ہوا۔ اس نامعقول پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے پاؤں بھی سن ہو گئے تھے۔
دانت کٹکٹاتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا۔ کھڑا ہونے کی کوشش کی تو چٹاخ پٹاخ دونوں گھٹنوں سے دو کڑاکے نکلے، سیدھا ہوا تو ایک کمر سے۔
سردی، حالات، جذبات وغیرہ کا تقاضا یہ تھا کہ بلاتاخیر اس سے لپٹ جاؤں مگر سر سے پاؤں تک یوں کانپ رہا تھا کہ شرم آئی کہ وہ مجھے کتنا کمزور اور بزدل سمجھے گی۔
کمزوری بزدلی کا خیال آتے ہی مجھے جانے کیا سوجھی کہ میں نے بیٹھکیں لگانا شروع کر دیں۔ پچھتایا بھی کہ یہ خیال پہلے کیوں نہ آیا۔
دونوں موبائل کی روشنی میں کمرے کا منظر یوں تھا کہ ایک کونے میں بکری خوفزدہ اور چوکنی نظروں سے دیگر دونوں نفوس کو باری باری دیکھ رہی ہے۔ درمیان میں لولو "تو ذرا چھیڑ سہی، تشنہ مضراب ہے ساز” کی تفسیر بنی کھڑی ہے۔ اور اس کونے میں تمہارا بھائی ڈنڈ بیٹھکیں لگا رہا۔
اس بے وقت کی ایکسرسائز سے بدن کی لرزش تو کم نہ ہوئی البتہ آواز کی کپکپاہٹ پہ خاطر خواہ فرق پڑا اور آپاں باتاں تودنے کے قابل ہو گئے۔ اس سے زیادہ تو اس وقت سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
لیکن لولو غالباً اس سے بہت آگے کا سوچ کر آئی ہوئی تھی۔ وہ فل رومانس/ مستی کے موڈ میں تھی جبکہ مجھے اس وقت آغوش مادر کی تلاش تھی۔ جوں جوں اس کی پیش قدمی اور دست درازی بڑھتی جا رہی تھی، توں توں اپنا بے غیرت لہو رگوں میں جمتا جا رہا تھا۔ آخر تنگ آ کر اسے لرزتے، کانپتے ہاتھوں سے پیچھے دھکیلا اور اپنی نامردی کو پاکیزگی کا لبادہ اوڑھا دیا۔
"ت..ت.. تت..تت…تتت….تم …. مم..۔ممم… میری امانت ہو، اور ممممم…. ممممم… میں امانت میں خخخخ…خخ… خیانت نہیں کر سکتا”
لولو یہ سستا ڈائیلاگ سن کر پگھل کر رہ گئی اور بے اختیار میرے سینے سے آ لگی۔ مگر اب کی بار اس پہ ہوس کی بجائے عقیدت کا رنگ غالب تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں نے موقع مناسب جان کر بزرگانہ شفقت کے ساتھ اس کا سر تھپتھپایا اور ہاتھ ملتے بلکہ رگڑتےگھر کو روانہ ہوا۔