کالم

یہ سیاسی جماعت نہیں کلٹ ہے

اپریل 1, 2022 3 min

یہ سیاسی جماعت نہیں کلٹ ہے

Reading Time: 3 minutes

بات ہو رہی تھی کلٹ کی، تو کلٹ کی خاصیت یہی ہوتی ہے کہ اسے اپنے آقا یا کلٹ لیڈر کا ہر عمل ماسٹر سٹروک ہی نظر آتا ہے۔ مثلاً ٹرمپ کے دور میں جس وقت خان صاحب اور ان کے حواری امریکہ پاکستان دوستی پر مینڈک بنے ٹرا رہے تھے کلٹ کے نزدیک وہ بھی ماسٹر سٹروک تھا۔ کلٹ کے نزدیک بزدار کو وزیراعلی بنانا بھی ماسٹر سٹروک تھا۔

کلٹ کے نزدیک اندرون و بیرون جماعت دباؤ کے باوجود بھی بزدار کا استعفی قبول نہ کرنا بھی ماسٹر سٹروک تھا۔ کلٹ کے نزدیک آخرکار بزدار کو وزارت اعلی سے ہٹا دینا بھی ماسٹر سٹروک تھا۔ کلٹ کے نزدیک چوہدری پرویز الہی کو سب سے بڑا ڈاکو کہنا بھی ماسٹر سٹروک تھا، پھر اس سے ہاتھ ملانا بھی ماسٹر سٹروک تھا۔ کلٹ کے نزدیک خان کا کسی کے دباؤ میں نہ آنا بھی ماسٹر سٹروک تھا اور پھر ایم کیو ایم کے قدموں میں حاضری دینا بھی ماسٹر سٹروک تھا۔ کلٹ کے نزدیک آئی ایم ایف سے آزادی کا اعلان بھی ماسٹر سٹروک تھا اور آئی ایم ایف کی شرائط قبول کرنا بھی ماسٹر سٹروک تھا۔ کلٹ کے نزدیک ایک پیج پر ہونا بھی ماسٹر سٹروک تھا، اور کلٹ کے نزدیک فوج سے ٹکر لینا جو پتہ نہیں کب لی بھی ماسٹر سٹروک تھا۔ کلٹ کے نزدیک شیخ رشید کو چپڑاسی بننے کے قابل نہ بنانا بھی ماسٹر سٹروک تھا اور پھر اسی کو وزیر داخلہ بنانا بھی ماسٹر سٹروک تھا۔ کلٹ کے نزدیک الیکٹیبلز کو ساتھ ملانا بھی ماسٹر سٹروک تھا اور پھر الیکٹیبلز کو گالیاں دینا بھی ماسٹر سٹروک تھا۔ کلٹ کے نزدیک الیکٹیبلز کے منحرف ہونے پر خوف نہ کھانا بھی ماسٹر سٹروک تھا اور الیکٹیبلز کو واپس بلانے کی دعوت دینا بھی ماسٹر سٹروک تھا۔

پاکستان تحریک انصاف ایک جماعت نہیں ایک کلٹ ہے جس کی بنیاد جذباتی لگاؤ اور مخالفین سے نفرت پر استوار ہے۔ جوانی میں میرے بھی محبوب رہے ہیں آپ کے بھی یقیناً رہے ہوں گے۔ آپ کو احساس ہوگا کہ محبت میں انسان کافی حد تک اندھا ہوجاتا ہے، پھر محبت میاں صاحب کی ہو یا خان صاحب کی۔ بارہا عرض کر چکا ہوں کہ محبت بچی سے تو کرنا بنتی ہے تاہم ریاست کے سیاستدان سے نہیں کیونکہ پھر ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پالیسی کے مطابق نہیں ہوتا، بلکہ محبت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اور جب محبت ہوتی ہے تو محبوب سیاستدان کی ہر ادا ہر بار ہر حماقت ہر چولیٹ اچھی لگنے لگتی ہے۔ بقول جون۔۔۔

ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا ہوں تیری حمایت میں

کسی بھی آرگیزمک یوتھیے کو اٹھا کر دیکھ لیں۔ اسے خان صاحب کے ہر اقدام سے آرگیزم محسوس ہوتا دکھائی دے گا۔

رہی بات بھٹو، کاسترو یا شاویز کی صف کی تو کلٹ جو بھی ہو اسے اپنا لیڈر اسی صف میں بلکہ اس صف کی امامت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ نواز شریف کے مداح صحافی کی زمین اتنی ہی مزاحیہ ہے جتنی عمران کے مقلد صحافیوں کی ہے۔ جس معاشرے میں اپنے بیانات سے پھرنا، ایک بار نہیں کئی بار پھرنا بلکہ بار بار پھرنا ماسٹر سٹروک کہلایا جائے میرا خیال میں اس معاشرے کی سیاست کو صرف مزاح کی حد تک انجوائے کرنا چاہئے نہ کہ اس میں سے نیلسن منڈیلا، کاسترو، ہیوگو شاویز کشید کرنے چاہئیں۔

رہی بات خط کی تو آج کل سیاسی پولرائزیشن اپنے عروج پر ہے۔ ذرا وقت لگے گا، پھر آپ دیکھیں گے کہ اسی خط کو لے کر یہی صحافی جو آج اوہ یا اوہ یا کر رہے ہیں، کیسے منہ سے جھاگ نکالیں گے۔ پانی میں مدھانی چلا کر وقتی فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، زیادہ عرصے یہ حکمت عملی چلتی نہیں۔

مجھے اس سب معاملے میں افسوس بس اتنا ہے کہ معاشرے میں سیاست کی وجہ سے جو نفرت اس نئے کلٹ نے برپا کر دی ہے، اسے قابو کرنے میں جانے کتنے برس لگ جائیں۔ اللہ کے کرم سے ہمارے پاس منقسم ہونے کی پہلے ہی چار سو بونجہ وجوہات تھیں، ایک وجہ اور ڈھونڈ لی گئی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے