عمران خان، فاشزم اور اسلامی نظام کا چورن
Reading Time: 5 minutesہر وہ شخص جسے عمران خان کے اندر ایک فاشسٹ دکھائی نہیں دیتا وہ یا تو فکری اعتبار سے مجہول ہے، یا اندھا مقلد یا پھر فکری بددیانت ہے۔ مزید برآں، بغور مطالعہ کرنے سے ممکن ہے ایسے فرد کے اندر شدھ جہادی بھی بیٹھا نظر آجائے۔
فسطائیت کی کلاسیکی خصوصیات میں دائیں ہاتھ کے افکار کا اپنی حکمرانی کے حق میں استعمال، آمرانہ طرز حکومت، شدھ قوم پرستی اور ایک عدد charismatic لیڈر شامل ہیں۔ پھر بیشک کسی کو اسلامی طرز حکومت میں یہی خصوصیات نظر آجائیں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ گدھا گھوڑو ملانا فکری بددیانت سوڈو دانشوران کا خاصہ ہے۔ ان میں مذہب کا تڑکہ لگا ہو تو یہ عوام کے اندر کا مسلمان جگانے کی کوشش الگ کرتے ہیں جن سے اندھے مقلد تو متاثر ہو سکتے ہیں، کسی بھی درجے میں سوچنے والا شخص ضروری نہیں کہ ان کا اثر قبول کرے۔
نظام حکومت کی اپنی ایک تاریخ، اپنا ایک ارتقاء رہا ہے۔ جس وقت مسلمان حکمران بذور تلوار دنیا پر اپنا قبضہ پھیلا رہے تھے عین اسی وقت یورپین بھی expeditions کے نام پر یہی کام کرنے میں مصروف تھے۔ مسئلہ اس وقت ہوا جب سینکڑوں برس عوام کو بے زبان رعیت ماننے والوں کو عوام نے اپنی طاقت بغاوت کی شکل میں دکھانا شروع کی اور پھر اکثر ہی ایسا ہونے لگا۔ وہاں سے جمہوریت کا تصور غالب آنا شروع ہوا جو آج معروف ہے۔
بات بہت واضح ہے۔ فاشزم، حقیقتا جمہوریت اور جمہوری اقدار کے برعکس نظام حکومت ہے۔ اس بات کو ماننے میں کوئی مضائقہ ہو تو بات بھی ہے لیکن جب جمہوریت کے حق اور فاشزم کے خلاف نظریات رکھنے والا ایک شخص بلا چون و چراں اس بات کو ببانگ دہل مان لیتا ہے تو اس میں “ابلیسیت” اور “شیطانیت” ڈھونڈ نکالنا سوائے چرب زبانی اور لفاظی کے اور کچھ نہیں۔ ابلیسیت کی اصطلاح چونکہ اوسط مسلمانوں کے ذہن میں منفی جذبات کا باعث بنتی ہے لہذا بات بات پر ابلیسیت یا شیطانیت کا ذکر کرنے والوں کے بارے میں جان لیجیے کہ ان کا مقصد شدھ مسلمانوں کو متاثر کرنا ہے۔
جمہوریت کی ضد آمریت ہے۔ آمریت میں چند مخصوص تڑکوں کا اضافہ (جن کا ذکر شروع میں ہوا) فسطائیت یا فاشزم ہیں۔ کس کمبخت کو اس بات سے اتفاق ہے کہ جمہوریت کسی بھی اسلامی طرز حکومت سے مطابقت رکھتی ہے؟ اسلامی نظام حکومت نامی کوئی واضح چیز اول تو دستیاب نہیں۔ اپنے تئیں جس نے بھی آج تک “اسلامی نظام حکومت” نافذ کرنے کی کوشش کی اس کا موازنہ کسی اور ایسا دعوی کرنے والے کی حکومت یا مبینہ اسلامی سیاسی نظام سے کر کے دیکھ لیجیے، بنیاد ہی میں شدید فرق نظر آجائیں گے۔ مثالیں دے کر کسی کو شرمندہ کرنا یا بیک فٹ پر لے جانا مقصود نہیں تاہم آج تک “اسلامی نظام” کے نام پر قائم ہونے والی حکومتیں دیکھنے سے اندازہ ہوجائے گا کہ خدا اور رسول کے نام پر عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا عملی نفاذ ہی رائج رہا ہے۔ رہی بات کسی قسم کے خیالی آئیڈیل یوٹوپیا کی تو وہ فقط خام خیالی ہی ہے، چاہے جس کا بھی ہو۔
نظام حکومت کو لے کر “اسلامی علمیت” عملی طور پر ایک دھوکہ ہے ایک ڈھکوسلہ ہے۔ جب دلائل، مشاہدات اور تجربات سے جمہوری نظام کی افادیت کا رد ثابت نہ ہو سکے تو اگلا طریقہ مغربی نظام حکومت کو نیک نیتی سے زیربحث لانے کی بجائے اپنے فکری مخالفین پر این جی او یا مغربی ایجنڈے کے نام پر ساڑ نکالنا ہی حل رہ جاتا ہے۔ فکری مخالف کے بارے میں اگر معلوم ہو کہ نہ کسی این جی او کا حصہ ہے نہ کسی ایجنڈے کا تو اگلا طریقہ “تمہیں نہیں معلوم میرے سورسز بتاتے ہیں” کا رہ جاتا ہے۔
پاکستان میں آئین کی رو سے جمہوریت نافذ ہے۔ اس آئین پر تنقید ہو سکتی ہے، اس سے اختلاف ہو سکتا ہے، اس پر بحث ہو سکتی ہے، مزید برآں اسے گفر کہہ کر اپنا دل بھی جلایا جا سکتا ہے لیکن حقیقت بہرحال یہی رہے گی کہ مملکت پاکستان میں نظام حکومت جمہوری تھا، ہے اور رہے گا۔ جب تک آپ کے اندر سکت نہیں کہ اس نظام کو تہہ تیغ کر کے کوئی شنواری سٹائل کا اسلامی نظام یا اطالوی فلیور کا فسطائی نظام رائج کریں، تب تک مملکت میں نافذ آئین و قانون کے تحت فاشزم حرام اور فاشسٹ خرامی ہے۔ اسی طرح جب تک جمہوریت ریاست کے آئین میں سر کے تاج کی حیثیت رکھتی ہے تب تک جمہوری اقدار سے منافی کسی بھی قسم کا “اسلامی نظام حکومت” ایک طرح کی آمریت ہی شمار کی جائے گی۔
یہ بہت واضح بات ہے۔ نہ اس میں کوئی ابہام ہے نہ کوئی اعتراض۔ جمہوریت کی اپنی ایک تعریف ہے ایک definition ہے۔ فاشزم کی اپنی ایک تعریف اپنی ایک definition ہے۔ ہم ہر طرز عمل کو by definition پرکھیں گے ناکہ کسی ٹام، ڈِک یا ہیری کی خواہشات کے مطابق ایمان لائیں گے۔ مثلاً جمہوری نظام میں ایک ہی خاندان کا بااثر رہنا آمریت یا بادشاہت کا پیٹرن ہے۔ اس پیٹرن پر شریف خاندان اور بھٹو خاندان میل کھاتا دکھائی دیتا ہے۔ ہم اس کی لاکھوں توجیہات سن لیں یا سنا دیں، حقیقت یہی رہے گی۔ بعینہ ایسے ہی، عمران خان اور پی ٹی آئی کے طرز عمل میں واضح فاشزم کے پیٹرن دکھائی دیتے ہیں۔
ایک نابغے کی تحریر نظر سے گزری جس کے مطابق بدنام زمانہ جرمن فاشسٹ کا بیانیہ نسل پرستی پر مبنی تھا جبکہ عمران خان کا بیانیہ “قوم کو عزت دینے” پر مبنی ہے۔ ایسے احمق دانشوران کے لیے پھر سے عرض ہے، فاشزم کی عمومی تعریف میں نسل پرستی کا ہونا نہ ہونا شامل نہیں، آمرانہ طرز عمل ضرور شامل ہے۔ کوئی بھنڈی کا بچہ یہ کہہ دے کہ عمران خان میں مطلق العنانیت کا نرگسیت زدہ عنصر نہیں تو ایک الگ بات ہے۔ اس پر ہم دلائل کا انبار لگا سکتے ہیں تاہم عمران کی دلالی کرنے والوں کو سمجھ پھر بھی نہیں آنی کیونکہ ان کا مسئلہ سمجھدانی کا ہونا نہ ہونا نہیں بلکہ ضد ہے۔ اسی طرح مندرجہ بالا نابغے نے اپنے تئیں دلیل دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ بدنام زمانہ جرمن فاشسٹ نے ذلت محسوس کرتی عوام کو چند قوم پرست نعرے عطاء کیے جس پر عوام کا جھکاؤ اس کی جانب ہوگیا۔ اپنی طرف سے یہ دلیل دی گئی ہے تاہم غور کیجیے تو فاشزم کی بنیادی definition میں شدید قوم پرست یا ultranationalist بیانیہ شامل ہے۔
بدنام زمانہ جرمن فاشسٹ نے قوم کے سامنے گوئبلز کا بیانیہ دوہرا دوہرا کر قوم کو ذلت محسوس کروائی اور پھر خود کو مسیحا بنا کر پیش کیا۔ یہ فاشزم کا بہت مضبوط پیٹرن ہے۔ عمران خان نے بعینہ یہی کیا۔ بدنام زمانہ جرمن فاشسٹ کے charisma کو لے کر ایک منظم پراپیگنڈا کیا گیا۔ آج دور عمرانی میں آپ کو “ہینڈسم تو ہے” ایک سنجیدہ دلیل کے طور پر سننے کو ملتا ہے۔ بدنام زمانہ جرمن فاشسٹ نے اپنے خلاف ہونے والے ہر فرد، ہر ادارے اور چونکہ اس کے پاس طاقت تھی لہذا ہر ریاست کی زباں بندی کی۔ عمران خان کے یہاں چونکہ درکار طاقت کا فقدان ہے لہذا کسی ریاست پر چڑھ دوڑنے کی اوقات بہرحال نہیں تھی البتہ عمران کے نزدیک بھی اس کے علاوہ ہر فرد، ہر محکمہ، ہر ادارہ جو اس سے اختلاف رکھتا ہے، باطل ہے۔
فی الوقت ایک سیاسی اختلاف کو حق و باطل کی جنگ بنا کر خود ہی سے خود کو حق بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس وقت جذبات ذرا حدت میں ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر آپ میں سے اکثر کو اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستانی تاریخ میں عمران خان سے بدتر فاشسٹ ذہنیت کا حامل فرد شاید ہی کوئی آیا ہو اور شاید ہی کوئی آئے۔