خوابوں کے شہر وینس میں
Reading Time: 8 minutesتھکا ہارا ہوٹل کے کمرے میںپہنچا اور بیڈ پر دراز ہو کر سوچنے لگا کہ میں آج اپنے خوابوں کے شہر کیسے پہنچ گیا، یقینا کسی کی دعائیں ہی ہیں کہ میں نے 15 سال قبل جو شہر دیکھنے کی خواہش کی تھی آج وہاں موجود تھا، تب تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں ایک دن اپنا رزق کھانے اٹلی کے شہر وینس بھی پہنچ سکتا ہوں۔
دعاؤں کے علاوہ 2008 کی بات ہے کہ دورہ حدیث کے سال میں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا تھا تو ایک دن کلاس کے بعد ہمارے ترمذی شریف کے استاد مولانا محمد حسین صدیقی صاحب کو اپنا خواب سنایا تو استاد محترم نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ "مولوی صادق ! سفر پہ جاؤگے”۔
تب تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں پاکستان سے باہر بھی جا سکتا ہوں لیکن آج مجھے میرا زرق کھینچ کر اپنے خوابوں کے شہر وینس تک پہنچا گیا۔ فاللہ الحمد۔
ہم نے اٹلی آنے سے قبل ہی پروگرام بنا لیا تھا کہ ہفتہ کے دن وینس دیکھنے چلیں گے، اظہر اقبال اور عدنان بٹ اگرچہ وینس پہلے بھی دیکھ چکے تھے لیکن میں، امیرحمزہ اور علی بھائی پہلی بار جا رہے تھے۔ ہم نے آج 11 بجے اظہر اقبال اور عدنان کے پاس "لیسونے” پہنچنا تھا۔
لیسونے اٹلی کے مشہور شہر میلان سے 20 کلومیٹر دور ایک ٹاؤن ہے جہاں ہماری رہائش ہے۔ اظہر اقبال اور عدنان اپنے فلیٹ میں رہ رہے ہیں جبکہ ہماری رہائش ان کے اپارٹمنٹ سے تقریبا 25 کلومیٹر دور ایک ہوٹل میں ہے۔
چونکہ کل ہم میلان سے لیٹ نائٹ واپس ہوٹل پہنچے تھے تو میرے دوستوں کی نیند شاید پوری نہیں تھی، بڑی مشکل سے صبح ان کو جگایا کہ وینس کے لئے دیر نہ ہو جائے۔ سوا نو بجے منہ ہاتھ دھو کر نیچے پہنچے تو کاؤنٹر پر شگفتہ میڈم نے ناشتہ دیتے ہوئے بتایا کہ ناشتہ 9 بجے ختم ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم دوستوں نے "شگفتہ” اور "چوہدری” کا نام ہر انجانے کو مختص کر دیا ہے، کوئی انجانی خاتون ٹکرا جائے تو ہم اسے شگفتہ کا نام دے دیتے ہیں اور کوئی مرد ٹکرا جائے تو وہ ہمارے لئے یہاں کا چوہدری صاحب ہے۔ ناشتہ کے بعد میں اٹھ کر اوپر آنے لگا تو ٹیبل پر پڑی پلیٹ گرا دی جو گر کر کئی حصوں میں بٹ گئی۔ میں نے وہ حصے اکھٹے کئے اور شگفتہ میڈم کی نظروں سے بچا کر اپنے شاٹس کی جیب میں ڈالے کہ ڈسٹ بین میں ڈال لوں گا۔ مسئلہ پلیٹ کا نہیں بلکہ شگفتہ میڈم کا تھا جو جوانی لٹانے کے بعد اب تقریباً 80 سال کی عمر میں اس ہوٹل کے اندر مہمانوں کی خدمت پر مامور تھی۔ وہ انگریزی جبکہ ہم اٹالین نہیں جانتے، تو ایسے میں اسے سمجھانا مشکل تھا تو بہتر صورت یہی لگی کہ شگفتہ کو کانوں کان خبر ہی نہ ہونے دی جائے کہ میں نے پلیٹ کِرْچی کِرْچی کر دی ہے۔
ناشتہ کے بعد تیاری میں بھی کافی ٹائم لگا اور تاخیر سے ہم لیسونے روانہ ہو گئے، پہلے 35 منٹس بس میں سفر کیا اور پھر ایک سٹاپ ٹرین میں سفر کر کے گھنٹہ بعد اظہر اقبال اور عدنان بھائی کے پاس لسونے پہنچے تو ڈیڑھ بج چکا تھا۔
دو بجے کے قریب ہم وینس کے لئے روانہ ہوئے۔ لسونے سے وینس کی مسافت 266 کلومیٹر ہے اور گوگل میپ نے بتایا کہ ہمارا یہ سفر ڈھائی گھنٹے کا ہوگا۔ ان ڈھائی گھنٹوں کے سفر میں روڈ کے ساتھ ساتھ دو ہی چیزیں نظر آئیں، یا مختلف کمپنیاں تھیں یا پھر خوبصورت کھیت اور باغات۔ آبادی کے بیچوبیچ روڈ کے کنارے زیتون، آڑو اور سیب کے باغات دیکھے تو اس بات پر افسوس ہوا کہ اتنی قیمتی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے بجائے چند سو درخت لگا کر زمین کو ضائع کر دیا ہے۔ یہ ہائی وے ہموار زمینوں پر چلتے چلتے کئی ساری چھوٹی بڑی پہاڑیوں سے گزری ہے جن سے سرنگ نکال کر پہاڑی کے اوپر سبزہ اور درختوں کو برقرار رکھا گیا تھا۔ میں نے عدنان بھائی سے کہا کہ اتنی چھوٹی پہاڑی کو اوپر سے کاٹنا ذیادہ آسان تھا لیکن صرف درختوں کو بچانے کے لئے سرنگ نکالے گئے ہیں۔ ہائی وے پر چلتے ہوئے روڈ کے اوپر بنی بلڈنگ نظر آئی تو اظہر بھائی نے ہمیں متوجہ کر کے بتایا کہ کہ یہ خوبصورتی اور ویوو کے لئے روڈ کے بالکل اوپر ہوٹل بنائے گئے ہیں جہاں سے آپ چائے پیتے ہوئے نیچے ہائی وے کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ ہم ساڑھے چار بجے وینس پہنچے تو شروع میں تو سمندر کے کنارے بسا بالکل ایک عام سا جدید شہر لگا۔ ہم نے سمندر کے اوپر بنے پل کو کراس کیا تو شروع میں ہی 5۔6 منزلہ پارکنگ میں گاڑی پارک کی۔ اب ہمارے پاس دو آپشن تھے کہ فیری لے کر وینس کے پرانے شہر جایا جائے یا پھر پونے گھنٹہ کی واک کی جائے۔ ہم نے ایک طرف سے فیری اور واپسی پہ واک کا پروگرام بنایا کہ وینس زیادہ سے زیادہ دیکھ سکیں۔ 7۔5 یورو کا فیری کا ٹکٹ لیا، تھوڑی دیر بعد فیری میں سوار ہوئے اور فیری سمندر کی لہروں پر جھولنے لگی۔ہماری پہلی اور فیری کی آخری منزل "سین مارکو” سٹاپ تھا جو بالکل پرانے وینس کے اندر موجود ہے۔
فیری کے لاسٹ پہ اوپن ائیر میں بیٹھے ہم سمندر کی لہروں کا مزہ لے رہے ہیں کہ امیرحمزہ نے مجھ پر یہ انکشاف کیا کہ یہ سمندر کے اندر کشتی یا فیری میں میرا پہلا سفر ہے۔ مجھے شرارت سوجھی تو اسے ڈرانے لگا کہ اگر یہ فیری ڈوب جائے تو آپ کو تیرنا تو آنا ہے نہ؟ پھر اسے تسلی دی کہ بےفکر رہیں یہ کنارے قریب ہیں یہاں تک تو میں بھی آپ کو لے جا کر بچا سکتا ہوں۔😉 فیری مختلف سٹیشن پر رکھتی رہی اور لوگ سوار ہوتے اور اترتے رہیں۔ علی بھائی ہم سب سے نظریں بچا کر فیری میں آگے جا کر بیٹھ گئے، ہم نے پہلے تو یہ سمجھا کہ شاید وہ تصویریں لینے گئے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے تشویش ہوئی اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے پہنچا تو علی بھائی کو حسیناؤں کے جھرمٹ میں ایسا گرا پایا کہ میرا وہاں تک پہنچنا بھی مشکل تھا۔ تو میں وہی فرنٹ پر ہی کھڑا سمندر اور شہر کے نظارے دیکھتا رہا۔ فیری جب پرانے وینس کے قریب پہنچی تو اپنی آنکھوں پر یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ کیسا شہر ہے جو سمندر کے اوپر بسایا گیا ہے کیونکہ دونوں سائڈوں پر چھوٹی بڑی گلیاں/نہریں نکل کر سمندر میں مل رہی تھی۔
وینس پانچویں یا چھٹی صدی میں حادثاتی طور پر وجود میں آنے یا بنسے والا اٹلی کا وہ شہر ہے جو 120 چھوٹے چھوٹے جزیروں پر بنایا گیا ہے جن کے بیچ میں 177 چھوٹی بڑی نہریں ہیں جو ان جزیروں کو آپس میں جوڑتے گزرتی ہیں۔ دنیا کے اس انوکھے اور عجیب شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پانچویں صدی میں ان لوگوں نے حملہ آوروں سے بھاگ کر یہاں پناہ لی تھی یا پھر حملہ آوروں نے انہیں زبردستی یہاں بھیج دیا تھا اور جیسے جیسے ان کی تعداد بڑھتی گئی تو زمین تنگ ہونے کی وجہ سے یہ مختلف جزیروں پر آباد ہو کر انہیں آپس میں کچھ نئی نہریں کود کر جوڑتے رہیں۔ پانی کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے گھروں کی بنیاد میں لکڑی کا بھی کافی استعمال ہوا ہے، پلستر اگر اکھڑا بھی ہو تو بنیادیں کافی مضبوط ہیں ۔ جب پہلی بار اس شہر کے بارے میں سنا تھا تو یقین کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ سمندر کے اوپر کیسے پورا شہر بسایا جا سکتا ہے کہ گلیوں میں سمندر کا پانی کھڑا ہو اور آپ گھر سے قدم نکالے تو آپ کا قدم زمین کے بجائے کشتی پر پڑے، لیکن آج میرے سامنے حیرت کا یہ جہاں موجود تھا جسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
ہم کھلے سمندر میں فیری میں سفر کرتے رہے اور ہر چند گلیوں بعد فلوٹنگ سٹیشن آ جاتا جس پر اکثر اوقات اپنی باری کے لئے فیری کو تھوڑی دور پیچھے ہی روک دیا جاتا۔ یہ گویا ہم سمندری ہائی وے پر چل رہے تھے اور ان سٹیشنز کے علاوہ سائیڈوں سے پانی کی گلیاں آ کر مل رہی تھیں اور ان گلیوں سے چھوٹی چھوٹی کشتیاں نکل کر سمندر میں اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی۔ ہم آخری سٹاپ پر اترے تو ہزاروں سیاحوں کے ہجوم میں چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا جو مختلف ملکوں سے اس عجیب شہر کو دیکھنے آئے تھے۔ قریبی پل پر تصویریں بنوائی اور اندر شہر کی گلیوں کی جانب مڑ گئے۔ ایک دو گلیوں کے بعد ہم "پیازا سین مارکو” پہنچے جسے آپ اس شہر کا تعمیراتی سکوائر کہہ سکتے ہیں کیونکہ قدیم شہر میں سب سے کھلی صرف یہی جگہ تھی۔ وہاں ایک سائڈ پر لائن میں بارز بنے ہوئے تھے جہاں آپ اپنی پسند کا مشروب پی سکتے ہیں لیکن بس اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ آپ کے سر پر منڈلاتی سمندری بگلے آپ سے ڈرنے کے بجائے آپ کے ٹیبل سے بسکٹ یا کیک اٹھا کر آپ کو بھوکا بھی چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے سامنے لوگوں کے ٹیبل سے "سیگل” کیک اٹھا کر اڑ جاتے اور وہ انہیں دیکھتے رہ جاتے۔ اس سکوائر کے بعد ہم نے انگل گوگل سے پارکنگ پلازہ تک واپسی کا راستہ پوچھا تو پتہ چلا کہ 50 منٹس میں ہم واپس گاڑی تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہمارا پلان وینس کی گلیوں میں پیدل گھوم گھوم کر واپس جانے کا تھا کہ شہر کا پورا وزٹ کرنا لازمی تھا۔ ہم تنگ گلیوں میں داخل ہوئے تو سیاحوں کے ہجوم میں مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں لاہور کی مشتاق احمد یوسفی والی گلی نہ آ جائے۔
ان تنگ کیوں میں چھوٹی چھوٹی دکانیں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی تھیں اور اکثر سیاح یہاں سے یادگاری تحائف دیکھنے اور خریدنے میں مصروف تھے۔ ان گلیوں میں جگہ جگہ گھروں کے باہر پرائیویٹ بوٹ کھڑے تھے جو مقامی باشندے گھر سے دفتر یا باہر آنے جانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ میں ان گلیوں، یہاں کے گھر اور کلچر میں گم جا رہا تھا کہ امیرحمزہ نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا کہ یار !! پتہ ہے میں سوچ رہا ہوں کہ کاش میں اس شہر اور ان گلیوں میں گم ہو جاؤں۔ میں نے ان کی بات سے اتفاق کیا کیونکہ میں جان گیا تھا کہ وینس میری سوچ سے کہیں زیادہ انوکھا اور خوبصورت شہر ہے۔ گلیوں کے بیچ گزرتے ہم ایک بڑی نہر کی طرف نکلے جہاں نہر کے دونوں کناروں پر بیشمار بارز بنے ہوئے تھے اور لوگ مشروبات پینے اور اس شہر کی یادیں بنانے بیٹھے تھے لیکن ہمارے پاس بیٹھنے کا ٹائم نہیں تھا کیونکہ واپس بھی جانا تھا۔ شہر میں گھومتے ہوئے ہمیں ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ کوئی صدیوں پرانا صاف ستھرا شہر ہے۔ ہم نہر کے کنارے چلتے ہوئے شہر کے نئے حصہ کی طرف نکل آئے۔جہاں پھر ٹرام، گاڑیاں اور جدید سہولیات نظر آئی اور مجھے ایسے لگا جیسے 5ویں صدی سے اس ماڈرن صدی میں واپس داخل ہو گیا یا کسی گہرے خواب دے آنکھ کھلی۔
وہاں سے پارکنگ گئے اور گاڑی میں بیٹھ کر واپس لسونے کی جانب روانہ ہو گئے۔ راستے میں اٹلی کے دوسرے شہر بریشیا پہ ہائے وے سے اترے کہ یہاں کے مشہور پاکستانی "تاج محل ریسٹورنٹ” میں ڈنر کر کے آگے جاتے ہیں، ڈنر کے بعد ہم نے اظہر بھائی اور عدنان بھائی کے انتخاب کو سراہا کہ تاج محل کا کھانا واقعی کمال تھا۔ کھانا کھا کر روانہ ہوئے اور رات 2 بجے کے قریب ہم اپنے ہوٹل پہنچے تو فورا سونے لگے کہ اب جلدی سویا جائے کیونکہ آگے دن ہم نے اٹلی کے مشہور شہر کومو کی جھیل دیکھنے جانا تھا۔