ڈاکٹرائن کے تباہ کن نتائج کا اندازہ درست نکلا
Reading Time: 2 minutesزندگی میں بہت بار اندازے غلط نکلے۔ توقعات اور مفروضوں میں ایسا ہوتا ہے لیکن جب سے شعور کی سطح بلند ہوئی چیزوں کا تجزیہ بہتر ہوتا گیا۔
جب ضیا کا ریفرنڈم ہوا تو مجھے لگتا تھا کل یہ شخص پاکستان کو بدل دے گا۔ بدل تو اس نے دیا لیکن بدترین شکل میں۔ برادری ازم، مذہبی تعصب اور پولرائزیشن کے علاوہ انتہا پسندی اس قوم کی جڑوں میں گھس گئی۔
ضیا جب مرا تو میری عمر 20 برس تھی۔ نونہال، تعلیم و تربیت، عمرو عیار، لندھور اور نسیم حجازی سے فارغ ہو کر اس وقت مستنصر تارڑ، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، سعادت منٹو، اشفاق احمد اور حمید اختر زیر مطالعہ تھے۔
اکیس برس کی عمر میں میں مذہب کی طرف راغب ہوگیا۔ سب تفاسیر, احادیث اور مذہبی کتابیں میرے کمرے کی زینت بن گئیں۔ ڈاکٹر اسرار کے ہاتھ بیعت ہو گیا اور فیصلہ کیا کہ بس قران کو سمجھنا اور پھیلانا ہے۔
اپنے تمام تعلیمی اور کاروباری پس منظر کی طرح یہاں بھی میں بہت نمایاں تھا۔ مدرس و مقرر بن گیا۔ جمعہ کے خطبے دینے لگا، مفکر اسلام کے بینرز لگنے لگے۔
پچیس برس کی عمر میں ایک دن مجھے اندازہ ہوا کہ میں اپنی صلاحیتوں کا غلط استعمال کر رہا ہوں۔ میرے اب تک کے تمام اندازے غلط تھا۔ میرے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ میں جسے غلط سمجھ رہا تھا وہ کرتا رہتا۔ جانتا تھا کہ گفتگو اور تقریر کا فن مجھے آتا ہے۔
یہ بھی جانتا تھا کہ جو نشہ اس کام میں ہے کسی اور کام میں نہیں۔ جو عزت آپ کے معتقد دیتے ہیں وہ ان کنڈیشنل ہوتی ہے۔لیکن راستہ بدل لیا۔
بس اب شعور اپنی ارتقائی منازل طے کر چکا تھا۔ میں ایک قدم اور آگے آ چکا تھا۔مجھے اپنے ماضی پر کوئی ندامت نہیں تھی کیونکہ میں جانتا تھا کہ ایک وقت تھا جب میں گھٹنوں کے بل چلتا تھا اور بھوک لگنے پر روتا تھا تاکہ مجھے دودھ پلایا جائے، تو کیا اپنے ارتقا پر شرمندہ ہوا جا سکتا ہے؟
بس اس کے بعد جتنے اندازے لگائے تقریباً سب درست نکلے۔
انہی اندازوں میں سے ایک یہ تھا کہ تجربہ عمران خان (مشہور جابوہ ڈاکٹرائن) کتنا تباہ کن ہو گا۔
میرا خیال ہے کہ اپنی کم از کم 50 تحریروں میں یہ بتا چکا تھا کہ اگر عمران خان کو معیشت سے کھیلنے کی ایسی ہی اجازت دستیاب رہی تو یہی ہوگا جو اس وقت ہو رہا ہے۔
عمران خان کے ساڑھے تین سال ہمیں 20 سال پیچھے لے گئے ہیں اور ضیا الحق کی طرح اس کا بویا کاٹنے میں دہائیاں لگیں گی۔