میلان، اٹلی کی خوبصورتی میں کھوئے سیاح
Reading Time: 11 minutesیاروں! جی بھر کے جی لے پل،
لگتا ہے آج کل، دور اپنا آئےگا،
یارو !!
جو خود پہ ہو یقین، تو زندگی حسین،
تجھے کل بلائےگا
گاڑی میں یہ گانا چل رہا تھا اور ہم فرانس کے خوبصورت لینڈ سکیپ سے گزر رہے تھے کہ ہماری منزل اٹلی کا مشہور شہر میلان تھی۔
میلان اور اٹلی کے چند دیگر شہر دیکھنے کا پروگرام ہم نے پراگ کے سفر کے دوران مارچ میں ہی بنا لیا تھا کہ اظہر اقبال بھائی نےمشورہ دیا تھا کہ اگلا سفر میلان کا کریں گے، ہم سب نے تائید کی تھی اور آج 2 جون کو ہم اسی طرف نکل پڑے۔
اس بار عدنان بٹ صاحب خاص طور پر اس سفر کے لئے یوکے سے آئے تھے، عدنان بٹ صاحب بھی پاکستانی اور اٹالین نیشنل ہیں لیکن آج کل یوکے میں جاب کر رہے ہیں ۔
اظہر بھائی اور عدنان بھائی نے اٹلی میں تقریبا 6۔7 سال ساتھ گزارے ہیں۔ میں ، امیرحمزہ، علی بھائی، عدنان بھائی اور اظہر بھائی کا گروپ بن گیا تھا جو سفر پہ روانہ ہوا۔ ان دو حضرات کی موجودگی میں ہمیں ہوم ورک کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ دونوں اٹلی کے چپے چپے سے واقف ہیں۔
عدنان بھائی سے پہلی ملاقات بھی صبح نکلنے سے پہلے ہی ہوئی، حال احوال کے بعد اسی وقت پتہ لگ گیا تھا کہ وہ بھی ہماری طرح یاروں کے یار ہیں اور ہمارا یہ سفر بہت مزیدار گزرنے والا ہے۔
ہم نے 2 جون کو دوپہر دو بجے برسلز سے میلان کی جانب سفر شروع کیا، ہمارا یہ سفر 900 کلومیٹر کا تھا تو ہم نےاندازہ لگا لیا کہ ان شاءاللہ ہم رات 1 بجے تک میلان پہنچ جائیں گے۔
بیلجیئم سے نکل کر لگزمبرگ میں داخل ہوئے جو بیلجیئم کے بغل میں ایک چھوٹا سا امیر ترین ملک ہے، تقریبا آدھے گھنٹے میں ہی لگزمبرگ ختم ہوا اور ہم فرانس میں داخل ہو گئے۔ بیلجیئم، لگزمبرگ اور فرانس کا لینڈ سکیپ ایک جیسا ہی ہے جہاں ہرطرف کھیت اور سبزہ نظر آتا ہے۔ ان کھیتوں پر موجود جدید ترین مشینیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان قوموں نے زراعت کو کتنا سنجیدہ لیا ہوا ہے، ان کی زراعت پر بات کرتے ہوئے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اٹلی میں ہمیں مزید حیران ہونا پڑےگا۔
ہم نے فرانس کے ساوتھ سے گزرتے ہوئے کولمار میں جا کر ریفریشمنٹ کے لئے سٹاپ کیا۔ کافی وغیرہ پی کر روانہ ہوئے تو سورج کی روشنی میں ہی الپائن پہاڑی سلسلہ شروع ہوا، آج کل گرمیوں میں یہاں ساڑھے نو بجے سورج غروب ہوتا ہے اور سوا دس تک روشنی ہی رہتی ہے۔ الپائن یورپ کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جو ساوتھ فرانس سے شروع ہو کر سوئٹزرلینڈ، اٹلی، آسٹریا اور سلووینیا تک جا پہنچتا ہے۔ یہ بالکل ہمارے شمالی علاقوں کی طرح اونچے اونچے پہاڑوں کا سلسلہ ہے جو اس پورے علاقے کو مزید خوبصورت بنا دیتا ہے۔
الپائن کے ساتھ ہی لینڈ سکیپ بھی چینج ہو جاتا ہے، اب فیکٹریوں اور کھیتوں کے بجائے زیادہ تر قدرتی سبزہ ہی نظر آتا ہے۔ سورج غروب ہونے سے پہلے ہم نے سوئٹزرلینڈ کا بارڈر کراس کیا اور فرانس سے سوئٹزرلینڈ میں داخل ہو گئے۔ سوئٹزرلینڈ یورپی یونین کا حصہ تو نہیں ہے البتہ شینجن میں ہونے کی وجہ سے آپ بغیر ویزہ کے داخل ہو سکتے ہیں۔
باقی یورپین ملکوں کے برعکس یہاں ایک بارڈر بھی بنایا گیا ہے جہاں سے آپ گزر کر داخل ہوتے ہیں اور کبھی کبھار بارڈر کا عملہ آپ سے سفری دستاویزات بھی طلب کر لیتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں سفر کرنے کے لئے آپ کو ٹول ٹیکس کے بجائے روڈ ٹیکس دینا پڑتا ہے جو ایک بار ہی 40 یورو سالانہ ہے، اظہر بھائی نے اتر کر 40 یورو کا ٹکٹ لیا اور ہم اسے گاڑی کی سکرین پر لگا کر سوئٹزرلینڈ میں داخل ہو گئے۔
سوئٹزرلینڈ میں داخل ہوتے ہی میں نے دوستوں سے کہا کہ پچھلی دفعہ 2016 میں سوئٹزرلینڈ آیا تھا اور جاتے وقت وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اللہ پاک مجھے کبھی دوبارہ سوئٹزرلینڈ دیکھنے کا موقع دیں گے، لیکن آج اللہ کے فضل سے میں دوبارہ پہنچ گیا۔ اندھیرے کی وجہ سے ہم زیادہ نظارہ تو نہیں کر سکے لیکن اونچے پہاڑ اور ان پہاڑوں کے دامن میں بڑی بڑی جھیلوں میں پہاڑ کے اوپر کی روشنیوں کا عکس نظر آ رہا تھا جس سے اندازہ ہوا کہ یہاں قدرت نے حسن کی تینوں اکائیاں پہاڑ، سبزہ اور پانی کا وافر ذخیرہ پیدا کیا ہے۔ ہم چونکہ لیٹ تھے تو سوئٹزرلینڈ میں رکے بغیر اسے کراس کر کے اٹلی میں داخل ہوئے۔
اٹلی میں اب ہماری منزل میلان کے قریب لسونے ٹاؤن تھا جہاں اظہر بھائی اور عدنان بھائی نے اپنے فلیٹ میں جبکہ ہم نے تھوڑا دور بسانگو میں ایک ہوٹل میں رہائش کا انتظام کر رکھا تھا۔
سارا دن سفر میں قدرت کے یہ مناظر دیکھنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے ملک کو بھی ڈسکس کرتے رہے کیونکہ پاکستان سے باہر آپ کا دل اپنے ملک کے لئے زیادہ تڑپتا ہے۔ اسی دن پاکستان میں 30 روپے پٹرول مزید مہنگا ہوا تو پھر ہم پاکستان کو کیسے نظرانداز کر سکتے تھے کہ ایک طرف ہماری سول و ملٹری اشرافیہ ملک کو کھا کھا کر کھوکھلا کر چکی ہے اور دوسری طرف ہر چیز کا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ ہم نے پورے دن میں 5 یورپی ممالک میں سفر کیا لیکن کسی جگہ ہمیں کوئی DHA نظر آیا اور نہ ہی پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار دیکھنے کو ملی، کہ جگہ جگہ بورڈ لگے ہوتے کہ شہر کے قریب بہترین لوکیشن پر ہاؤسنگ سوسائٹی بن رہی ہے۔ کیونکہ یہ قومیں زراعت کی اہمیت سے واقف ہیں کہ کھانا خود نہیں اگائیں گے تو پیسے دے کر خریدنا پڑےگا۔ ان کے فوجی عراق و افغانستان میں جنگیں لڑنے کے بعد بھی جب ریٹائر ہوتے ہیں تو اپنے امیرترین ملک سے بس پینشن ہی مانگتے ہیں جبکہ ہمارے جرنیلوں کو جنگوں کے بجائے گالف کھیلنے کی صورت میں ملک کی خدمت کے عوض ایک غریب و تباہ حال ملک سے DHA میں کئی کئی کنال کے پلاٹ چاہیے ہوتے ہیں۔
یہاں پورے یورپ کے کسی ملک میں کوئی DHA نہیں ہے۔ لیکن علی بھائی ہمیں بتانے لگے کہ دبئی میں DHA موجود ہے جس پر ہم سب چونک سے گئے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ تب ہماری حیرانگی سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا کہ وہاں DHA = Dubai Health Authority ہے جو عوام کی ہی خدمت کرتی ہے۔ ہم سارا دن قدرت کے حسین نظارے دیکھنے میں جب گم ہو جاتے تو پھر اپنے ملک کی ڈسکشن ہمیں غمزدہ بھی کر دیتی کہ پتہ نہیں کب ہم سرکاری سطح پر عیاشی چھوڑ کر بنیادی ضروریات پر فوکس کریں گے کہ ہمارے ملک میں بھی لوگ سکون کی زندگی جی سکیں۔
ہم رات 1 بجے کے قریب لسونے سے کچھ پہلے کومو پہنچ گئے عدنان بھائی اور اظہر بھائی چونکہ کومو میں کئی سال رہ چکے ہیں تو انہیں اس شہر کا پتہ تھا اس لئے سیدھا ایک پاکستانی ریسٹورنٹ لے گئے جو بس صفائی کر کے بند کر رہے تھے۔ ہم نے کھانے کا پوچھا تو کہا کہ پارسل دے سکتے ہیں۔ ہم نے اس ہوٹل سے کھانا پارسل لیا اور رات دو بجے کے قریب ہمیں ہمارے ہوٹل چھوڑ کو یہ دونوں اپنے اپارٹمنٹ چلے گئے۔
ہوٹل کے ریسیپشن پہ ایک اٹالین بابے نے ہمارا استقبال کیا جو تھوڑی بہت انگریزی بول لیتا تھا، اس سے چابی لے کر روم گئے اور بیڈ پر گرتے ہی نیند نے آ لیا۔
اگلی صبح اٹھ کر شاور لیا اور نیچے ناشتہ کرنے پہنچ گئے، ہمارے پیکج میں اگرچہ ناشتہ شامل تھا لیکن ہوٹل کا مالک شاید کنجوسی کی ہر حد پار کر چکا تھا کہ ناشتہ کے نام ہر بس جوس، کروسنٹ اور کافی رکھی ہوئی تھی۔ ہم نے شگفتہ میڈم سے ناشتہ مانگا اور ٹیبل پر بیٹھ کر اس دن کا پلان بنانے لگ گئے۔ شگفتہ میڈم کی عمر تقریبا 80 سال کے قریب تھی اور اس ہوٹل میں مہمانوں کا ناشتہ بنانے پر مامور تھی۔ ساتھ ایک چھوٹے قد کی دوسری شگفتہ بھی تھی جو بڑی آپا سے عمر میں 5۔6 سال کم لگتی تھی اور ٹیبل پر ناشتہ سروو کرنا ان کی زمہ داری تھی۔ تب ہم نے اندازہ لگایا کہ اس ملک میں بوڑھوں کی کثرت ہے اور یہی وجہ تھی کہ کرونا نے اٹلی میں تباہی مچا دی تھی۔ ناشتہ کر کے پبلک ٹرانسپورٹ سے لسونے کی طرف روانہ ہو گئے۔ آج ہمارا پلان میلان دیکھنے کا تھا۔ عدنان بھائی نے گھر پر ریسٹ اور کچھ ضروری کام نمٹانے تھے اس لئے وہ گھر پر ہی رہ گئے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ لسونے سے میلان 30 کلومیٹر ہے تو گاڑی کے بجائے ٹرین سے جائیں گے تاکہ وہاں پارکنگ کی ٹینشن نہ ہو۔ ہم بس سے مونزہ پہنچے تو تھوڑی دیر میں اظہر بھائی بھی وہاں آ گئے، جہاں سے ہم نے میلان کے لئے ٹرین لینی تھی۔
ہم ٹرین میں سوار ہوئے تو 20 منٹ میں ہی میلان پہنچ گئے۔ ٹرین سٹیشن سے نکل کر قریبی ہی ایک کافی شاپ گئے اور اظہر بھائی نے اپنے لئے کافی لی۔ پھر قریب ہی ایک سکوائر دیکھنے چلے گئے، جہاں کی ایک بلڈنگ مجھے بہت پسند آئی کہ پوری بلڈنگ پر پودے لگائے گئے تھے اور بلڈنگ نیچے سے اوپر تک گرین ہی گرین تھی۔ میلان آتے ہوئے موسم دیکھ لیا تھا کہ آج بارش ہونی ہے، سکوائر گھومتے ہوئے بوندا باندی شروع ہوئی اور ہم وہاں سے سینٹرل ریلوے اسٹیشن روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک چیز نے مجھے رکنے اور غور کرنے پر مجبور کیا کہ ہر بلڈنگ کے نیچے نکاسی آب کے لئے تقریبا 3۔4 منزلہ گہری جگہ بنائی گئی تھی جس کے اوپر فٹ پاتھ پر جالہ ایسے انداز سے لگایا گیا تھا کہ لوگ آسانی سے اس پر چل سکیں۔ البتہ کمزور دل والے شاید نہ چل پائے کیونکہ جالے سے نیچے گہرائی واضح نظر آ رہی تھی۔ تب مجھے یاد آیا کہ چند سال قبل کسی "ذہین” مگر بےوقوف انجنئیر نے کوئٹہ میں بھی پرنس روڈ و دیگر جگہوں پر نکاسی آب کے لئے روڈ کے بیچ نالی بنا کر اس پر سیمنٹ کے ایسے جالے لگانے کا پروجیکٹ اپروو کروایا تھا، پروجیکٹ تو بن گیا لیکن اس پر اب گاڑیاں نہیں گزر سکتی اور روڈ مزید تنگ ہو گیا ہے۔ کوئٹہ کے اس پروجیکٹ کے ڈیزائنر، ٹھیکیدار اور انجینئر سب ہی بلیک لسٹ کرنے کے قابل ہیں لیکن ہمارے ہاں تو ایسی حرکتوں پر تمغے ملتے ہیں جن سے ملک و قوم کا نقصان ہوا ہو۔ پیدل چلتے ہوئے ہم ریلوے سینٹرل سٹیشن کے سامنے پہنچے تو بارش تیز ہو گئی۔ ہم نے تھوڑی دیر ایک بلڈنگ کے برآمدے میں پناہ لی اور بارش تھمنے پر باہر نکل کر ریلوے اسٹیشن کی طرف چلے گئے۔ ہم سٹیشن پر پہنچے تو جگہ جگہ اٹلی کی نئی تیز ترین ٹرین کے اشتہارات لگے تھے جسے "اٹالو” کا نام دیا گیا تھا اور ان اشتہارات پر 350 کی سپیڈ سے چلنے کے دعوے موجود تھے۔ ہم سینٹرل سٹیشن گھوم رہے تھے کہ اظہر بھائی کے دوست ابرار مغل صاحب کی کال آئی اور ملنے پر اصرار کیا۔ اظہر بھائی نے سینٹرل سٹیشن کا بتایا تو 10 منٹس میں ہی وہاں پہنچ گئے اور ہمیں گاڑی میں بٹھا کر لنچ کروانے سیدھا ایک ٹرکش ریسٹورنٹ لے گئے۔ سب کے لئے ٹرکش پلیٹر کا آرڈر دیا اور ہم گپ شپ میں مصروف ہو گئے۔ ابرار صاحب بھی من موجی بندے نکلے اور ہم ایسے گپ شپ لگانے لگے جیسے سالوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ لنچ کے بعد ٹرکش قہوہ پیا اور ابرار صاحب کو رخصت کرنا چاہا تو وہ اس شرط پر راضی ہو گئے کہ گھومنے پھرنے کے بعد ان سے واپس رابطہ کیا جائےگا۔ ان سے واپس ملنے کا وعدہ کر کے میٹرو سٹیشن آئے اور "دومو” کی طرف روانہ ہو گئے۔ دومو کو میلان کھیترل چرچ بھی کہا جاتا ہے۔ جاتے وقت مجھے لگا کہ ایک عام سا یا کم از کم پرانا تاریخی چرچ ہوگا لیکن جیسے ہی ہم میٹرو سٹیشن سے باہر نکلے تو سامنے ایک خوبصورت اور عالی شان عمارت دیکھ کر محو حیرت ہونا لازمی تھا۔ اس چرچ کی تعمیر 1386 میں شروع ہوئی تھی اور 1965 تک اس کی تعمیرات چلتی رہی اور 1965 میں اسے پہلی بار عوام کے لئے کھول دیا گیا۔ سفید سنگ مرمر پتھر سے بنی اس عمارت پہ ہونے والے نقش و نگار دیکھ کر بندہ سوچتا ہے کہ انسانی عقل کی ابتدا ایسی ہے تو انتہاء جانے کیسی ہوگی۔ یہ عمارت چاندی راتوں میں اپنے محسورکن روشنی سے انسان کو خلاؤں میں پہنچا دیتی ہے اور کسی چاندنی رات میں یہاں گھنٹوں بیٹھ کر آپ بس عمارت کو دیکھتے رہ جائیں گے۔
دومو کے صحن میں ہر طرف سیاح ہی سیاح تھے کہ تصویر لینا مشکل ہو گیا تھا اور تب میری تصویر کے پیچھے چند حسینائیں غلطی سے آ گئی تھی جو چند دوستوں نے زوم کر کے اچھی طرح تسلی کی کہ واقعی تصویر مناسب نہیں ہے اور پھر مجھ پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کر دی تھی۔ دومو دیکھنے کے بعد ہم اس کے بغل میں موجود وٹوریہ گیلری دیکھنے چلے گئے جو 1877 میں شہر کو ماڈرن بنانے کے لئے بنائی گئی تھی اور اسی وجہ سے اسے ارکیٹکچر کا شاہکار کہا جا سکتا ہے کہ 1877 میں فرش اور دیواروں پر وہ نقش و نگار بنائے گئے ہیں جو اس جدید دور میں بھی کافی مشکل ہے۔ ایک جگہ سیاحوں کا جمگھٹا نظر آیا تو قریب جا کر دیکھا تو ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا تھا، کیونکہ فرش پر بنے شیر کی تصویر پر گورے لوگ شیر بچارے کی پچھلی ٹانگوں کے بیچ اپنی ایڑیوں پہ زور دے کر گھوم جاتے اور شیر کو یوں تکلیف دے کر اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ دہائیوں سے گھومتے رہنے سے شیر کی ٹانگوں کے بیچ ایک کھڈا سا بن گیا تھا۔ یہ گورے لوگ بھی ہم سے زیادہ توہم پرست ہیں لیکن بس فرق یہ ہے کہ ہم توہم پرستی مکمل عقیدت سے کرتے ہیں لیکن یہ لوگ اس کو زیادہ سیرئس نہیں لیتے اور نہ ہی انہیں غلط کہنے پر یہ آپ کو مارنے کو دوڑتے ہیں۔
گیلری دیکھنے کے بعد ہم وہاں سے "سفورسیسکو کیسل” دیکھنے چلے گئے جو دومو سے زیادہ دور نہیں تھا۔ گلیوں سے واک کرتے گزر رہے تھے کہ وقفہ وقفہ سے امیرحمزہ اپنی سریلی آواز میں گنگنانے لگتا، میں پہلے اس سے گانے سن کے محظوظ ہوا اور پھر سب دوستوں کو کہا کہ اس کی سریلی آواز میں مجھے ایک ناکام عاشق کا درد محسوس ہو رہا ہے۔ ہم قلعہ پہنچے تو قلعہ کی دیوار کے اردگرد حفاظت کی خاطر پانی چھوڑنے کے لئے بہت گہرا نہر کھودا گیا تھا۔ اب تو پانی موجود نہیں تھا لیکن اس دور کے حساب سے قلعہ کی حفاظت میں اس نہر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی نہر میں اب منجنیق کے گولے پڑے تھے، منجنیق کو میں کئی جگہوں پر دیکھ چکا تھا لیکن منجنیق کے گولے پہلی بار دیکھے جس پر ہم سب نے تبصرہ کیا کہ پتھر کو ایسے فٹ بال کی طرح گول بنانا کیسے ممکن ہوا ہوگا۔ قلعہ دیکھنے کے بعد پچھلے دروازے سے باہر نکلے تو قلعہ کے پچھلی جانب ایک خوبصورت پارک تھا، ہم تھوڑی دیر پارک میں بیٹھے اور پھر ابرار بھائی سے رابطہ کیا اور میٹرو میں ایک دو سٹیشن آگے گئے جہاں وہ ہمارے منتظر تھے۔
ابرار بھائی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے تو وہ پہلے آئس کریم کھلانے لے گئے اور پھر اظہر بھائی کے ایک اور دوست سے ملنے ان کی دوکان چلے گئے۔ مغرب تک وہاں بیٹھے گپ شپ لگایا اور پھر ابرار مغل صاحب کے ساتھ ہی لسونے روانہ ہو گئے۔ لسونے پہنچنے کے قریب اظہر بھائی نے کھانے کا پوچھا تو سب نے کہا کہ کھانا کھانے کا موڈ نہیں ہے بس ہوٹل پہنچ کر آرام کرتے ہیں تاکہ ہفتہ کو وینس دیکھنے چلے جائیں۔ ابھی ہم لسونے نہیں پہنچے تھے کہ اظہر اقبال کو بھائی ابوذر کی کال آ گئی۔
بھائی ابوذر اظہر اقبال کے بہت اچھے دوست اور اٹلی میں تبلیغی جماعت کے انتہائی مخلص ساتھی ہیں۔ بھائی ابوذر سے میری پہلی ملاقات بیلجیئم میں ہی ہوئی تھی جب وہ ایک پاکستانی جماعت کی نصرت کو اٹلی سے بیلجیئم آئے تھے۔ بھائی ابوذر نے کوئی بہانہ سنے بغیر حکم سنا دیا کہ لسونے کی مسجد میں بنگلہ دیش سے تبلیغی جماعت آئی ہے اور آپ لوگوں نے بھی لازمی آنا ہے۔
ابرار بھائی نے ہمیں مسجد اتارا اور واپس چلے گئے، ہم داخل ہوئے ہو بھائی ابوذر نے فورا ہاتھ دھو کر دسترخوان پر بیٹھنے کا دوسرا حکم سنا دیا۔ ڈنر کر کے رات ساڑھے گیارہ بجے مسجد میں عشاء کی نماز پڑھی تو بھائی ابوذر نے قہوہ پلانے پھر بٹھا دیا۔
وہاں مسجد کے پیش امام کے علاوہ چند دیگر پاکستانی احباب سے بھی ملاقات ہوئی اور قہوہ کی مجلس پر کچھ دیر یورپ میں موجود پاکستانی کمیونٹی کو ڈسکس کیا اور پھر رات ڈیڑھ بجے کے قریب بھائی ابوذر سے اجازت لے کر اپنے ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے۔
ہوٹل پہنچے تو تقریبا 2 بج رہے تھے۔ اگلے دن 4 جون کو ہم نے وینس کی سیر کی (جس کا سفر نامہ آپ پڑھ چکے ہیں) اور اتوار کے دن اٹلی کا کومو شہر دیکھا اور 6 جون کو سوئٹزرلینڈ سے ہوتے ہوئے بیلجیئم پہنچ گئے۔
کومو اور سوئٹزرلینڈ کیسا لگا، یہ کہانی پھر سہی.