پی ٹی آئی کس کے ووٹ سے جیتی؟
Reading Time: 3 minutesسب سے پہلے تو پاکستان تحریک انصاف کے دوستوں کو جیت مبارک ہو۔
چند سوالات جو اہم ہیں۔ کئی تضادات ہیں جن کی جانب توجہ دلانا لازمی ہے۔
پہلی بات، انتخابات فری اینڈ فیئر تھے یا نہیں؟ اگر منظم دھاندلی زدہ نہیں تھے تو چیف الیکشن کمشنر نے اپنا فرض نبھایا۔ منظم دھاندلی ہوتی ہے تو آر ٹی ایس بیٹھنے کے بعد واپس “کھڑا” ہونے پر نتائج پلٹ جاتے ہیں۔
انتخابات کے نتائج روکے نہیں گئے۔ رات نو بجے تک نتائج تقریباً واضح ہوچکے تھے۔ یہ سب باتیں سن کر خان صاحب اور ان کے مقلدین کو تھوڑی بہت شرم ضرور آنی چاہیے کیونکہ یہ سب حربے ماضی میں جرنیل کے کاندھوں پر چڑھ کر خان صاحب نے آزمائے۔ دھاندلی دوسروں کے ساتھ ہو تو دھاندلی، آپ کے ساتھ ہو تو ایک پیج، سبحان اللہ۔
دوسری بات، کان پک گئے تھے سنتے سنتے کہ پی ڈی ایم کے سر پر فوج کا ہاتھ ہے۔ میاں! کل ملا کر کہانی یہ ہے کہ فوج نے آپ کے سر سے ہاتھ اٹھا دیا۔ وہ جنہیں آپ کبھی جانور کہتے رہے کبھی ان کی منتیں کرتے رہے کہ جانو پلیز مجھے اپنے نکاح میں واپس لے آؤ۔
انہوں نے آپ سے علیحدگی اختیار کی تو آپ سڑیل ہوکر الزام لگانا شروع ہوگئے۔ فوج نے آپ کو ہرانا ہوتا تو بس ہرا دیتی۔ وہ اس کام کی اہلیت اور تجربہ دونوں رکھتے ہیں۔ آپ کی ساری عوامی طاقت کی بتی بنا کر ہاتھ میں دینا کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ نہ آپ سپرمین ہیں نہ آپ کے پاس سٹیل کے خصیے ہیں۔
اپریل سے اب تک بارہا ثابت ہوا ہے کہ فوج اس وقت نیوٹرل ہے۔ گزشتہ روز ایک بار پھر یہی بات ثابت ہوئی۔
تیسری بات، عمران خان کے مجھ جیسے ناقدین کو خان سے دو بڑے مسائل تھے۔ پہلا مسئلہ، نرگسیت زدہ انسان ہے اور جملہ اقسام کے منجن بیچتا ہے۔
دوسرا مسئلہ، فوج کا پٹھو ہونا ہے۔ ایک اور مسئلہ خان کی نااہلی بھی ہے لیکن چلیے اسے ایک جانب رکھتے ہیں مقابلے میں کون سا سقراط و بقراط جونیئر بیٹھے ہیں۔ ہمیں بل پاس کرنا ہوتا تو ہمیں فوج سے مدد لینی ہوتی۔ الیکشن کمشنر فوج نے لگوایا۔
میرے خوش و خرم انصافی بھائیو، اب تو مان لو کہ خان طفیلیہ رہا ہے فوج کا۔ فوج کے ساتھ فی الوقت اس کا پیج پھٹ چکا ہے۔ وہ فیض عام کے ساتھ بوس و کنار بند کر دے تو ہمارا خان سے یہ اختلاف ختم ہے۔ نرگسیت زدہ ہے، اسے ہم بدل نہیں سکتے۔ جہاں جو چورن بکتا نظر آئے فورا سے بیشتر بیچ دیتا ہے۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات نے البتہ ایک اہم بات ثابت کی جو ہم یا میں شاید اگنور کر چکے تھے۔ بھئی یہ چورن بکتا ہے۔ یہ چورن بکا ہے۔ خان نے مارکیٹنگ کی اور اس کا سودا بک گیا۔ بہرحال جمہوریت تو اسی کا نام ہے۔ خان کے گھٹیا پن کو عوام کی اکثریت پسند کرتی ہے تو بسم اللہ۔ آزادانہ الیکشن کے ذریعے حکومت میں آئے اور کھود ڈالے ملک۔
جمہوریت جمہور کی آواز ہی کا نام ہے۔ عوام حور کو منتخب کریں یا لنگور کو، جسے بھی کریں بس پانچ سال بھگتیں بھی اسی کو۔ اس تسلسل میں مداخلت کیے بغیر چلنے دیا جائے تو نظام خود بہتر ہوگا۔ اصول تو یہی ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ عمران خان بے اصولی کی انسانی تجسیم ہے۔ پنجاب کی 20 سیٹوں کی حد تک خان صاحب ایک فربہ مارجن سے فاتح قرار پائے ہیں۔
اور فربہ سے ہم چھلانگ لگاتے ہیں اس بات پر جو آخر کے لیے رکھی تھی۔
عین اس لمحے جب خان خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر مارکیٹ کر رہا ہے، ایک مشہور زمانہ فربہ دانشور نے دس بارہ سال عمران خان کی کامیاب کیمپین چلانے کے بعد اسی لمحے اپنا ووٹ جماعت اسلامی کو ڈالنے کا اعلان کیا۔ فرمایا جماعت اسلامی کا احتسابی نظام بہتر ہے، موروثیت نہیں، امیدوار سب سے بہتر ہیں۔
یار کوئی اس فربہ دانشور سے پوچھے۔ جناب! یہ سب تو بچپن سے حقائق کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ سب تو تب بھی درست تھا جب تو پی ٹی آئی کی کیمپین چلا رہا تھا، آج احساس ہوا؟ اچانک؟ پولنگ بوتھ کا دورہ کرتے؟