اب عمران خان کس طرف جائیں گے؟
Reading Time: 2 minutesمجھے بہرحال اس ساری صورتحال سے قطعی کوئی مایوسی نہیں ہوئی۔
بلکہ یہ سمجھتا ہوں کہ جن بڑے بڑے لوگوں کو سن کر اور پڑھ کر میں جو باتیں کرتا تھا وہ درست ثابت ہوئیں۔
میرا پہلا موقف یہ تھا کہ عمران خان غیرقانونی طریقے استعمال کر کے الیکشن 2018 جیتا اور وزیراعظم بنا تھا تو اس بات کو عمران خان نے خود تسلیم کیا کہ باپ پارٹی اور ایم کیو ایم نے ان سے کہا کہ فون کروا دو یعنی عمران خان کی حکومت ایجنسیوں کے زور پر کھڑی تھی۔
ہم نے کہا کہ خان ایک پپٹ یعنی کٹھ پتلی ہے تو الحمدللہ خان نے تسلیم کیا کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتا تھا اسے کرنے نہیں دیا گیا, اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دفتر بیٹھتا تھا۔اس نے مانا کہ قاضی فائز پر ریفرنس سے لے کر راجہ سکندر سلطان تک وہ ایک کاٹھ کا پپٹ تھا۔
ہمارا موقف تھا کہ عمران خان نااہل ہے تو اس نے کسی جلسے میں اپنی کارکردگی کا نعرہ نہیں لگایا اور نہ ہی اپنے وسیم اکرم پلس کو کسی جلسے میں لے گیا, بلکہ یہ کہا کہ اسے کمزور حکومت دی گئی ورنہ وہ کارکردگی دکھاتا۔
ہمارا موقف یہ تھا کہ 50 سال اس قوم کو مطالعہ پاکستان پڑھا پڑھا کر اور رٹے کا نظام چلا کر آپ نے اس ملک کے عوام کو مختلف انداز میں سوچنےکی صلاحیت سے یکسر محروم کر دیا ہے اور وہ مصنوعی تجزیے کے ماہر بن گئے ہیں تو اس الیکشن کا نتیجہ یہ بتا رہا ہے کہ یہ کسی کارکردگی کی بجائے جھوٹے نعروں پر جیتا گیا۔
ایک اور بات جو سچ ثابت ہوئی کہ اس بار اسٹیبلشمنٹ سچ مچ نیوٹرل ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ پرویز الہٰی ان کی مرضی پر نہ چلتا, اسے آزاد چھوڑا گیا۔
اسی طرح ہائیکورٹ سے ڈی سیٹ ہونے کی جلدی حالانکہ قاسم سوری کا کیس تین سال سے زیر التوا ہے۔
اسی طرح الیکشن ڈے پر فوج کا ڈیوٹی سے انکار۔
اگر 22 تاریخ کو اسٹیبلشمنٹ پنجاب حکومت کو بچانا چاہے تو آج بھی بچا سکتی ہے کہ 10 پی ٹی آئی ارکان اس روز اسمبلی ہی نہ آئیں جیسا کہ اس نے سنجرانی عدم اعتماد کے دن کیا تھا۔
ہماری ایک اور بات درست ثابت ہوئی کہ ایک مستحکم حکومت کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرے گا کیونکہ عمران خان جیسے غبی انسان نے بھی یہ مانا کہ مستحکم حکومت درکار ہے حالانکہ اپنے تمام دور حکومت میں اس نے جمہوری عمل کو منقطع رکھا اور اقتدار کے راج سنگھاسن پر داسیوں کا رقص دیکھتا رہا۔
اس ساری صورتحال سے اب بھی خیر برآمد ہوسکتی ہے اگر سیاستدان ایک دوسرے سے گفتگو کریں لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان مزید جارحانہ انداز اختیار کریں گے اور مستقبل میں کسی بڑے قومی اتفاق رائے کو نظر انداز کریں گے۔