کالم

دعوت فکر!

جولائی 24, 2022 2 min

دعوت فکر!

Reading Time: 2 minutes

عبدالجبارناصر

1۔ ہم سینئر سیاستدان اور مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما محترم خواجہ سعد رفیق صاحب اور سینئر صحافی محترم انصار عباسی صاحب ‎کوبرسوں سے روزانہ کی بنیادپر ٹوئٹر پرفالوکرتے ہیں۔

2۔ خواجہ جس ترتیب سے آیات قرآنی پوسٹ کرتےہیں اندازہ ہے کہ عام دنوں میں تقریبا روزانہ فجر کے بعد آدھا سے ایک پارہ، رمضان المبارک کے عام دنوں میں دو سے تین پارے اور طاق راتوں میں تین سے چار پارے تلاوت ان کامعمول ہے۔

3۔ جس طرح خواجہ صاحب آیات قرآنی (با ترجمہ) کو پوسٹ کرتے ہیں اسی طرح عباسی صاحب بھی اپنی صبح کا آغاز ایک حقیقی مومن کی طرح کرتے ہیں اور درود شریف پوسٹ کرنا معمول ہے۔

4۔ دونوں احباب کے اعمال قابل تحسین، قابل تقلید اور قابل رشک ہیں، کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارے دن کا آغاز اور عمل اسی طرح ہو۔ ہم نے حالیہ دو برسوں میں تقلید کی کوشش کی اور الحمد للہ بہت فائدہ ہوا۔

اصل_بات!
5۔ اب آتے ہیں اصل بات کی طرف دونوں کی پوسٹ آیات و دورد شریف کے نیچے جو تبصرے اور گالیاں ہوتی ہیں وہ الامان والحفیظ جو در اصل ‎قہرخداوندی کو دعوت دینے کے مترادف اور گمراہی کی انتہا ہے۔

6۔ جب ان آئی ڈیز کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بدقسمتی بدبختوں کی اکثریت پی ٹی آئی کی حامی نظر آتی ہے۔

7۔ یہ لوگ جہاں غیر دانستہ اپنی عاقبت تباہ کر رہے ہیں وہیں اپنی حامی جماعت کے لیے وبال بھی بنتے ہیں۔

8۔ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ یہ عمل محترم عمران صاحب اور جماعت کے دیگر رہنماؤں کی ہدایت پر ہورہا ہے ، مگر یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ جس طرح وہ کھلے عام لوگوں کے متعلق بد زبانی اور بد کلامی کا اظہار کرتے ہیں، مذکورہ بالا بدترین عمل اسی ترتیب کا نتیجہ ہے۔

9۔ تحریک انصاف کی قیادت بالخصوص عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے حامیوں کو ایک انسان اور مسلمان کی حیثیت سے اختلاف رائے کی تربیت کریں، ورنہ جہاں ان لوگوں کی عاقبت تباہ ہوگی وہ خان صاحب بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

10۔ ہمارا دعوٰی ہے کہ ان پوسٹوں کے نیچے جو زبان مسلمان استعمال کر رہے ہیں، اگر ان کے مقابلے میں کسی غیر مسلم نے ایک فیصد بھی ایسی حرکت کی ہوتی تو ہم سب سراپا احتجاج ہوتے۔

11۔ خواجہ سعد رفیق صاحب اور انصار عباسی صاحب سے اختلاف کریں اور کرنا بھی چاہئے یا جب کبھی وہ خلاف معمول ان اعمال کو کسی خاص سیاسی یا غیر متعلقہ ذاتی فائدہ یا واقعہ سے جوڑیں تو اس کی نشاندہی ضرور کریں، مگر گالیاں اور بکواس کو معمول بنانا دین و دنیا کی بربادی ہے۔

12۔ اگر کوئی شخص یہ عمل دانستہ اور سنگینی کے ادراک کے باوجود کرتا ہے تو وہ اپنی شرعی حیثیت اور نتیجہ کسی مستند عالم سے ضرور پوچھے۔

13۔ ان نکات کا مطلب کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں بلکہ صورتحال کی سنگینی کا احساس دلانا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے