ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار، پرویز الہی وزیراعلی پنجاب
Reading Time: 3 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کالعد م قرار دیا ہے.
منگل کو چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے پرویز الٰہی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو وزارت اعلی سےہٹا کر پرویز الہی کو وزیراعلی قرار دیا ہے.
قبل ازیں سماعت کے آغاز پر عرفان قادر نے عدالت میں کہا کہ میرے موکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا، ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہا ہے، فل کورٹ سے متعلق فیصلے پر نظرثانی دائر کریں گے۔
اس موقع پر فاروق نائیک نے بھی عدالت کو کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کردیا۔
چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں، اس کے بعد عدالت نے پرویزالٰہی کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا۔
دورانِ سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے فل کورٹ بنانے کا کوئی قانونی جوازپیش نہیں کیا گیا، عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پرعمل کرنے سے متعلق دلائل دیے گئے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں، اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے، فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے، فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبرتک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، آرٹیکل63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف انحراف کرنے والے کے نتیجے کا تھا۔
چیف جسٹس نے علی ظفر کے وکیل سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کہ کس کی ہدایات پر ووٹ دیا جائے؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمانی پارٹی دیتی ہے، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا پارلیمانی پارٹی، پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟ علییظفر نے کہا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ْ
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی، جماعت کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کوبتایا جاتا ہے جس کی روشنی میں وہ فیصلہ کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جج کے باربار اپنی رائے تبدیل کرنے سے اچھی مثال نہیں ہوتی، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے، میں اپنی رائے تب ہی بدلوں گا جب ٹھوس وجوہات دی جائیں گی، کیا 17 میں سے 8 ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہوسکتی ہے؟ فل کورٹ بینچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کیا کہ عدالت کو پارٹی سربراہ کی ہدایات یا پارلیمانی پارٹی ڈائریکشنزپرمعاونت درکارہے، قانونی سوالات پرمعاونت کریں یا پھرہم اس بینچ سےالگ ہوجائیں، جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کوعبادت کا درجہ دیتا ہوں، میرے دائیں بیٹھے حضرات نے اتفاق رائے سے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا ہے، شکرہے کہ اتنی گریس باقی ہے کہ عدالتی کارروائی سننے کے لیے بیٹھے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کردیا جس کے بعد سماعت پھر شروع ہوئی تو علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ارکان کےخلاف ایکشن پارٹی سربراہ لے گا، پارٹی سربراہ منحرف ارکان کےخلاف ڈکلیئریشن بھیجتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فریق دفاع کا کہنا ہے پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو کنٹرول کرتا ہے۔
جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیے کہ واضح ہے اگرکسی ممبرکوپارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہیں دینا تو استعفیٰ دے کر دوبارہ آجائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اختیارات پارٹی ہیڈ کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں، کوئی شبہ نہیں پارٹی سربراہ کا اہم کردارہے تاہم ووٹنگ کیلئے ہدایات پارلیمانی پارٹی ہیڈ دیتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست پر سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 5:45 پر فیصلہ سنائیں گے۔