کالم

شہباز گل جیسے کن ٹٹوں کے جھوٹ کو سچ کیوں مانیں؟

اگست 18, 2022 4 min

شہباز گل جیسے کن ٹٹوں کے جھوٹ کو سچ کیوں مانیں؟

Reading Time: 4 minutes

احباب کی رائے ہے تشدد کی مذمت ہونی چاہیے۔ میں احباب سے متفق ہوں۔ بات اگر تشدد کی ہے تو میری جانب سے اس کی شدید مذمت کی جاتی ہے۔
ہوگئی مذمت؟

چلیے اب آگے چلتے ہیں۔

سوشل میڈیا سمیت زبان عام جو ٹھٹھے کا طوفان برپا ہے اس کے پیچھے چند عوامل ہیں جن پر بات کرنا ضروری ہے۔

سب سے پہلا نکتہ سرکاری اداروں کی تحویل میں جانے کی بابت ہے۔ کیا سرکار کسی فرد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق نہیں رکھتی؟ بالکل رکھتی ہے۔ کیا سرکار نے شہباز گل کے خلاف مقدمہ دائر کر کے اسے عدالت میں نہیں پیش کیا؟ بالکل کیا ہے۔

کیا شہباز گل کا مبینہ جرم قابل مواخذہ نہیں ؟ عمران خان اور تحریک انصاف کی دیگر شخصیات کے اپنے بیانات کے مطابق، بالکل ہے۔ کیا عدالت کے حکم کے خلاف شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ لیا جا رہا ہے؟ جی بالکل بھی نہیں، یہ عین عدالتی احکامات کے مطابق ہے۔

لیکن کیا واقعی شہباز گل پر تشدد ہو رہا ہے؟

ہم سب نے شیر آیا، شیر آیا والی کہانی تو سنی ہوگی جس کا نتیجہ یہی نکالا گیا تھا کہ جھوٹ سے گریز کرنا چاہیے ورنہ وقت آنے پر آپ کا سچ بھی جھوٹ ہی سمجھا جائے گا۔

شہباز گل کا ٹریک ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ وہ کون سا جھوٹ ہے جو آپ نے نہیں بولا؟ وہ کون سی بد کلامی ہے جو آپ نے نہیں فرمائی؟ چلیے اس کی بھی چھوڑیے۔

ریاست کا ایک نظام ہے جس کے تحت کسی پر تشدد ثابت ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ مانا کہ ریاست بذات خود صادق و امین نہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم ریاست کے مختلف اداروں بشمول پولیس، سرکاری ہسپتال، عدلیہ کی جانب سے دستیاب معلومات کے برعکس عمران خان اور ان کی جماعت کے بیانات پر یقین کر لیں جن کی وجہ تسمیہ ہی ”یوٹرن “ رہے ہیں؟

کیا ہمیں شہباز گل کے ڈرائیور والا ڈرامہ یاد نہیں؟ کیا ہمیں پرویز الہی کے ٹوٹے ہاتھ والا ڈرامہ یاد نہیں؟ کیا ہمیں شہباز گل کی گاڑی کو ہوئے مضحکہ خیز حادثے والا ڈرامہ یاد نہیں؟

کیا ہم بھول گئے ہیں کہ نواز شریف کی بیماری کو لے کر آج تک کس قسم کے طنز کیے جاتے ہیں؟ کیا ہم بھول جاتے ہیں کہ کلثوم نواز کی وفات سے پہلے اور بعد تک کس بے رحمی سے کسی کے مر جانے پر بھی ٹھٹھے لگائے گئے؟ کیا ہمیں یاد نہیں کہ جاوید ہاشمی جب تک جیل میں رہے ان پر کیا پھبتیاں لگتی رہیں؟

یقیناً ایک غلط کی توجیہہ دوسرے غلط سے نہیں دی جا سکتی لیکن یہاں تو سوال ہی پہلے غلط کا ہے۔ کیا تحریک انصاف کے مخالفین پر ہونے والا ہر تشدد جھوٹ جبکہ تحریک انصاف کے ساتھ ہونے والی ہر مبینہ زیادتی ہی سچ ہے؟

اس ضمن میں ایک ذاتی تجربہ گوش گزار ہو۔

ایک دن میں ابا مرحوم و دیگر عائلی ممبران کے ساتھ نیو خان میں راولپنڈی تا پشاور پہنچا۔ مجھے وجہ یاد نہیں البتہ ہم جلدی میں تھے۔ فورا ٹیکسی پکڑی اور پیسوں کی بات کیے بغیر بیٹھ گئے۔ اڈے سے باہر نکلتے ہوئے ہر گاڑی والے کو کسی قسم کا ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس کام کے لیے “بڑوں” نے کوئی چھوٹا موٹا لوکل کن ٹٹا پالا ہوا ہوتا ہے جس کی وضع قطع دیکھ کر ٹیکسی رکشے والے دس بیس روپے دینے میں عافیت جانتے ہیں۔

اس دن ٹیکسی والے اور اس کن ٹٹے کے درمیان کوئی تو تو میں میں ہوگئی۔ ہمیں دیر ہو رہی تھی۔ ابا جی ٹیکسی والے پر چڑھ دوڑے۔ ٹیکسی والے نے دہائی دی کہ یہ کن ٹٹا زیادتی کر رہا ہے۔ میں اور ابا مرحوم اتر کر درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرنے لگے کیونکہ ہمیں جلدی تھی۔ راستہ تو کیا نکلنا تھا کن ٹٹے نے ذرا اکڑ دکھائی۔ میں تب ڈیل ڈول میں بھی خوب تھا اور اب کی نسبت لہو بھی گرم تھا، نے کن ٹٹے غنڈے کو پکڑ کر دو چار گھونسے رسید کر دیے۔

کن ٹٹا پہلے تو حیران ہوا کہ یہ فارمی بابو نے سب کے سامنے ہی پیٹ دیا۔ پھر اچانک سے اس نے پینترا بدلا اور اپنا گریبان پھاڑنا شروع کر دیا۔ میں حیران کہ اسے کیا ہوا۔ ابھی غنڈہ گردی کر رہا تھا اب بین ڈال رہا ہے۔ اتنے میں کن ٹٹے نے اگلا داؤ کھیلا۔ اس نے نیچے لیٹ کر سر سڑک سے پھوڑنا شروع کر دیا۔ بس اڈا تھا، یعنی مصروف مقام۔ ابا مرحوم نے یہ دیکھا تو مجھے ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا اور کہا چل اب۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور نکل پڑے۔

میں تپا ہوا تھا۔ ابا سے پوچھا یہ کیا بات ہوئی؟ ابھی تو میں نے اس کی کٹ لگائی ہی نہ تھی۔ ابا جو یقیناً کسی وجہ سے ابا ہوتے ہیں، نے دو چار اصطلاحات کن ٹٹے کے اجداد کی شان میں بیان کرتے ہوئے سمجھایا کہ بیٹا ابھی یہاں پولیس آجاتی اور بلاوجہ معاملہ بگڑ جاتا۔ وہ خود کو زخمی کر کے تجھ پر حملے کا مدعا ڈال دیتا ہم پھر ادھر رل جاتے۔

تشدد اگر ہوا ہے تو صاحب یہ ایک جرم ہے، اور ہماری جانب سے ہر جرم کی سیدھی سیدھی مذمت ہے۔ اب جرم ہوا ہے یا نہیں یہ ابھی ثابت ہونا ہے۔ جس دن ہوگیا مذمت ہی مذمت۔ اس سے پہلے پہلے شہباز گل جیسے کن ٹٹے کی آکسیجن ماسک کے ساتھ وائرل تصاویر اور ویڈیوز کو کم از کم میں اس کی پوری جماعت کے سابقہ ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے جھوٹ، جھوٹ اور صرف جھوٹ ہی مانوں گا۔

یہ لوگ نہ صرف جھوٹے کذاب ہیں بلکہ شقی القلب قسم کے ظالم بھی ہیں۔ نواز شریف کے پلیٹلیٹس میں مبینہ مسئلہ تھا۔ اس مبینہ مسئلے کو کنفرم مسئلے کا درجہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی رپورٹس نے دیا، معاذ بن محمود نے نہیں۔ کیا اس دور میں خان صاحب اے سی اتروانے کی دھمکیاں نہیں دیتے تھے؟ گویا آج اگر رانا ثناءاللہ امریکہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈھٹائی سے کہے کہ میں شہباز گل کے ہسپتال یا جیل سے اے سی اتروا دوں گا تو یہ ظلم ہوگا جبکہ عمران خان کا کہا انصاف؟

ذیل میں دی گئی ویڈیو دیکھیے۔ یہ کلثوم نواز کی وفات کے بعد کی ہے۔ دوستو، نہ میرا اسم یسوع مسیح ہے، نہ میرے عمل یسوع مسیح والے ہیں اور نہ میری سیرت یسوع مسیح والی ہے جو میں اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ان کی سفاکی کا دور یاد کرنے کی بجائے ان پر ترس کھاؤں۔

میں‌نے اب تک شہباز گل کے مبینہ ڈرامے پر کچھ نہیں لکھا لیکن میں دو نمبر اور دوہرے معیار کی اخلاقیات سے خوف کھانے کی بجائے یہ بات سرعام کہنے کی ہمت رکھتا ہوں کہ ان خبیثوں سفاکوں کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ ہونا چاہئے مگر قانونی طریقے سے۔


ویڈیو دیکھیے اور سوچیے کہ کیوں میاں نواز شریف کی یاسمین راشد کی جانب سےتصدیق کردہ بیماری کا مذاق اڑانا عین جائز ہے اور کیوں شہباز گل پر مبینہ تشدد کا ٹھٹھہ اڑانا ناجائز ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے