اہم خبریں متفرق خبریں

جیل میں تشدد، سپر ماڈل ایان علی نے بھی لب کھول دیے

اگست 20, 2022 5 min

جیل میں تشدد، سپر ماڈل ایان علی نے بھی لب کھول دیے

Reading Time: 5 minutes

سُپر ماڈل ایان علی نے تحریک انصاف کے شہباز گل پر جیل میں مبینہ تشدد پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ایام اسیری کی داستان سنائی ہے۔

ایک بیان میں انہوں نے لکھا کہ:

کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
‏کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا

سنہ 2015 میں جب چند معلوم و نامعلوم کرداروں نے چند مخصوص و مزموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہمارا انتخاب کیا تو کیا خیال ہے، وہ ذہنی جسمانی و صنفی تشدد کرنے سے جھجکے ہوں گے؟

جی نہیں! نہیں جھجکے۔ اڈیالہ جیل کے ڈیتھ سیل میں گزرے اُن 4 ماہ کا ہر ایک دِن و ہر ایک رات ایک مختلف تشدد کی داستان ہے، جسے سنانے کا حوصلہ شاید ابھی ہم میں نہیں مختصراً یہ کہ بیشتر مرتبہ بیچاری خاتون جیل سپرنٹینڈنٹ کو کہنا پڑتا تھا کہ "سر نہ کریں یہ لڑکی ہے آپ ایسا نہیں کر سکتے۔”

مگر وہ جو اُس وقت خود کو ریاستِ خداداد کا ناخُدا سمجھتے تھے، بیچاری Female Superintendent کی دہائی کیا سنتے۔

‏اُنہیں تو ایک Video Recoreded بیان چاہیے تھا۔
‏اُس بیان کو حاصل کرنے کے لیے جو جو حربے آزمائے گئے، اُن میں سے چند عدالتی اور چند Medical Records پر اپنے نقوش چھوڑ گئے۔

میڈیکل ریکارڈ سے یاد آیا کہ جیل سے نکلنے کے بعد نگرانی کا یہ عالم تھا کہ ہمارے کسی کلینک کے معمولی سے وزٹ سے لے کر Fast Food Chain سے آرڈر کیا گیا برگر تک ٹی وی پر لائیو رپورٹ ہوتا تھا اِس عالم میں پاکستان میں طبی معائنہ کروانا تو بعید از قیاس تھا۔

پہلی مرتبہ میڈیکل ایگزامینیشن کا موقع بھی دو سال بعد دبئی میں ملا جب ای سی ایل سے جان چھوٹی۔
‏اِس طبی معائنے میں پتا چلا کہ 4 ماہ کے جسمانی و صنفی اور دو سال کے نفسیاتی تشدد نے Cardiomyopathy، Lower Back Lumbago اور Recurrent Chronic Depression کے ساتھ عمر بھر کے لیے کئی بیماریوں کے تحفے دیے ہیں۔

اِن تحفوں کا کچھ اثر تو جیل کے ایام میں ہی واضح ہونا شروع ہو گیا تھا جب 4 ماہ میں وزن 58 کلو سے 90 کلو ہو گیا۔
‏اِس Abnormal Weight Gain کی وجہ Harmonic Reaction To Gender Specific Violence تھا
‏اِس تشدد کا ذکر بھی ایک قرض ہے جو ہم کسی دِن ضرور ادا کریں گے۔

ابھی تو مریم نواز بھی باوجود دخترِ وزیر اعظم ہونے کے Gender Specific Violence کے مکمل بیان سے پہلو تہی کرتی ہیں کیونکہ معاشرہ شاید مکمل سچ سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔
‏امید ہے وہ ہم اور ہم جیسے کئی اور کبھی Trigger Warning کے ساتھ ہی مگر یہ سچ بیان کر سکیں گے
‏بغیر کسی خوف کے۔

آج تو مقصد وہ داستان بیان کرنا نہیں۔
‏اُس داستان کے عوامی تاثر کی حقیقت بیان کرنا ہے۔
‏ہمارے بارے میں عوامی تاثر یہ تھا کہ ہم جیل میں بیش بہا سہولیات سے مستفید ہیں اور غالباً عیاشی کی ایک زندگی گزار رہے ہیں۔
‏حقیقت یہ تھی کہ 6×9 کے ایک سیل میں قید تھے جس میں درج ذیل سہولیات تھیں۔

ایک چٹائی
‏ایک گھڑا پانی (نیم گدلا)
‏ایک سیمی اوپن واش روم
‏ایک صابن جسے کئی بار توڑ کر دیکھا جاتا کہ اُس میں کوئی سیٹلائٹ فون تو نہیں۔
‏ایک شیمپو جو شاید صرف Hairfall بڑھاتا ہی تھا۔
‏پنکھا جون جولائی میں مانگنے پر بھی نہ ملا مگر چھپکلیاں اور لال بیگ بنا مانگے لا تعداد فراہم کیے گئے۔

پنکھے کی کمی نیم گدلے پانی کے خود زمین پر چھڑکاو سے پوری ہو جاتی تھی اور چھپکلیوں اور لال بیگوں سے کچھ دوستی ہو گئی تھی، رات کے کسی پہر اُن کی خود پر موجودگی بھی قید تنہائی میں ناگوار نہیں گزرتی تھی،
‏کچھ کمپنی ہی محسوس ہوتی تھی۔

یہ تھی وہ عیاشی جسے بچشم خود دیکھنے کے لیے با وردی و بے وردی مرد اہلکا دن میں کئی بار خلافِ قانون سیل کی سرپرائز تلاشی لیتے تھے۔
‏یہ خیال کیے بغیر کہ کوئی مقیدِ قفس کس عالم میں ہے
‏آپ سب کے دِل میں یہ سوال ہو گا پھر یہ حالات دورانِ پیشی ہمارے چہرے پر واضح کیوں نہ ہوتے تھے؟

ہم کیوں ایک Damsel In Distress یا سٹار پلس کی زبان میں "ابلا ناری” کا عملی نمونہ دکھائی نہ دیتے تھے؟
‏اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔
‏وہ یہ کہ ہم نے روزِ اول ہی یہ تہیہ کیا تھا کہ جو لوگ بہت گھمنڈ سے ایک Supermodel کو 48 گھنٹوں میں توڑنے کا وعدہ کر رہے تھے اُن کے گھمنڈ کو توڑنا تھا۔

یہ ثابت کرنا تھا کہ اُن کا تشدد اگر مردانِ سیاست برداشت کر سکتے ہیں تو Independent خواتین بھی برداشت کر سکتی ہیں۔
‏محض تشدد کے سامنے کوئی Independent لڑکی اپنے کردار کے منافی بیان نہیں دیتی۔
‏شائد کم عمری کی وجہ سے ہم خود کو دِل ہی دِل میں خواتین کا کوئی نمائندہ مان بیٹھے تھے۔

اور یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر ہم ٹوٹے ہوئے دکھائی دیے تو عورت ٹوٹی ہوئی دکھائی دے گی اور آئندہ کوئی عورت پر اعتبار نہیں کرے گا۔
‏بس اسی ذعم میں ہر پیشی سے پہلے کسی African ملزمہ کا جون جولائی کی گرمی میں دیا ہوا Used Hoodie لے کر پہنتے تھے جو چہرے اور گردن پر نشان چھپائے۔

کسی پاکستانی ملزمہ کا دیا ہوا Eyeliner، کسی کی دی ہوئی 100 روپے کی لپسٹک اور کسی کی فئیر اینڈ لولی.
‏اِن آلاتِ حرب سے لیس ہو کر ہم پدر شاہی معاشرے سے جنگ کرنے چل پڑتے تھے۔
‏مقصد یہی تھا کہ اپنے بد خواہوں کو تکلیف دیں اور نیک مندوں کو حوصلہ کہ لڑکی ابھی ٹوٹی نہیں۔

اِن آلاتِ حرب کے استعمال اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کے اظہار کی قیمت ہر پیشی سے واپسی پر چکانی پڑتی
‏تزحیک آمیز تشدد کچھ درجے مزید بڑھ جاتا اور پابندیاں کچھ مزید سخت ہو جاتیں
‏جب بھائی و وکلاء تک سے ملاقات بھی بند کر دی گئی تو آنکھیں نم ضرور ہوئیں مگر تنہائی میں .

دوسروں کے سامنے تو چولہے پر استری کیے گئے کپڑے سے زخم سیکتے بھی اُف نہیں کری تھی
‏ڈر لگتا تھا کہ کوئی ویڈیو نہ بنا لے اور یہ نہ کہتا پھرے کہ دیکھا نہ ٹوٹ گئی
‏اِن حالات میں دوسری قیدی خواتین ایسے
‏حوصلہ دیتی تھیں جیسے میں سچ میں اُن کی کوئی Leader ہوں .

یہ چولہے پر استری کیا گیا کپڑا، Hoodie، Eyeliner، Lipstick اور فئیر اینڈ لولی وہ ایسے لڑ جھگڑ کر فراہم کرتی تھیں گویا وہ بھی شاملِ جنگ ہوں
‏بعض اوقات تو حدود Cross ہوتی دیکھ کر میرے لیے احتجاج بھی کر ڈالتی تھیں
‏اُن کے یہی عمل لڑتے رہنے کا حوصلہ دیتے تھے .

آج جب شہباز گِل ⁦‪‬⁩ کو روتے گڑگڑاتے اور مبالغہ کی حد تک اداکاری کرتے دیکھا تو دکھ ہوا کیونکہ وہ ایک سیاسی جماعت کے رکن اور کابینہ کے سابق ممبر.
‏وہ یہ کیوں نہیں سوچ رہے کہ اُن کی بچگانہ حرکتوں سے اُن کے ہم جماعتی سیاستدانوں اور وزراء کولیگز پر کیا تاثر پڑے گا.
کہ زرہ برابر Comfort Disturb ہوئی نہیں اور مانند بھینسے کے ڈکارنا شروع کر دیا.
‏عدالتی چوکھٹ پر ہی لیٹ گئے کہ میں نے نہیں جانا پولیس کے ساتھ.
‏اور عدالتی فیصلوں کے ساتھ سانس نتھی ہو گئی جو اپنے صوبے کے وزیرِ داخلہ نے بھی مانی.
‏ویسے اِس سے بھی بڑھ کر شرم کی بات کچھ اور ہے .

سیاستدان و وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ ⁦‪@SHABAZGIL‬⁩ پدر شاہی یا Patriarchy کے Brand Ambassador بھی تھے.


خواتین کے متعلق گندی زبان، رقییق جملے بازی و Toxic Masculinity کے اظہار میں ان کا اپنا مقام تھا
‏اب یہ ہائے ہائے کار دیکھ کر پدر شاہی بھی سوچتی ہو گی کہ کس کو Brand Ambassador رکھا.

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے