کالم

آسٹریلیا کو ہنرمندوں کی ضرورت، طریقہ کار کیا ہے؟

ستمبر 4, 2022 8 min

آسٹریلیا کو ہنرمندوں کی ضرورت، طریقہ کار کیا ہے؟

Reading Time: 8 minutes

دیکھیے میں کوئی کنسلٹینٹ تو ہوں نہیں، تاہم چونکہ اپنا ویزا میں نے بغیر کسی کنسلٹینٹ پراسیس کروایا لہذا اپنے مشاہدات، تجربات و معلومات کی روشنی میں جو آج تک مجھے سمجھ آیا اس کا لب لباب عرض کیے دیتا ہوں۔ یقیناً میرا کہا غلط ہو سکتا ہے لہذا میں دعوت دیتا ہوں کہ اسے کراس چیک کروا لیجیے۔

آبادی پر قابو پانا ہر ترقی یافتہ ریاست کی ترجیحات میں سرفہرست ہوتا ہے۔ آبادی پر قابو پانے سے مراد فقط خاندانی منصوبہ بندی ہی نہیں بلکہ اپنی آبادی کے حساب سے ریاستی وسائل و سہولیات فراہم کرنا اسی پراسیس کا حصہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو ذہن میں یہ رکھیے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی آبادی میں فقط اضافے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اگر ایسے ممالک بیرونی دنیا سے افرادی قوت کو اپنے یہاں خوش آمدید کہتے ہیں تو اس میں اصل مقصد ریاستی مفاد ہوتا ہے ناکہ خدمت خلق۔ امگریشن اسی سلسلے کا ایک ذریعہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ ریاست کو امگریشن میں کیا فائدہ ہے؟ جواب آسان سا ہے۔ ریاست مجموعی طور پر اوسط درجہ صلاحیت کے حامل لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اب اگر ایک ملک میں افرادی قوت کی ضرورت ہے تو انہیں فقط افراد نہیں چاہیے ہیں بلکہ دوسرے ممالک خاص کر ترقی پذیر و غریب ممالک کے ذہین و تجربہ کار دماغ درکار ہیں۔ یہ ذہانت اور تجربہ ایک طریقہ کار اپنا کر پرکھا جاتا ہے۔ اس طریقے کے تحت امگریشن اپلائی کرنے والوں کی تعلیم، تجربہ، ریاستی زبان میں مہارت، عمر اور چند ایک ممالک میں مالی پوزیشن بھی دیکھی جاتی ہے۔

یہ بات ذہن میں رکھیے کہ امگریشن کے لیے صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر سے درخواستیں جمع کرائی جاتی ہیں۔ لہذا سب سے پہلی بات جو ذہن میں رکھنی ہے وہ یہ کہ اگر آسٹریلیا نے ویزے کی اجراء میں اضافے کا اعلان کیا ہے تو اس کا اطلاق صرف پاکستان پر نہیں، دنیا بھر کے ممالک پر ہوگا۔ دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ کم از کم میرے پاس کوئی وجہ نہیں کہ کوئی بھی ملک بھارت کو چھوڑ کر پاکستان کی افرادی قوت کو فیور کرے گا، جبکہ بھارت کو فیور کرنے کے امکانات بھی کہیں زیادہ ہیں اور بھارت سے آنے والی ویزا درخواستیں بھی ہماری نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ تیسری تلخ حقیقت یہ کہ پاکستان کی وجہ تسمیہ دنیا بھر میں عمومی طور پر منفی ہی ہے۔ ممکن ہے آپ کو یہ سن کر برا لگے تاہم حقیقت یہی ہے۔

اب آتے ہیں میری معلومات کے مطابق آسٹریلیا کی جانب سے دستیاب ویزا سٹریمز یا ویزا پروگرامز پر۔ اس ضمن میں چار ویزے اہم ہیں جن کے بارے میں میرے پاس معلومات دستیاب ہیں۔ شاید اور بھی ہوں، مجھے نہیں پتہ۔

۱۔ سٹوڈنٹ ویزا

غالباً یہ سٹریم ویزا سب کلاس 500 کہلاتی ہے۔ تفصیلی معلومات کے لیے کسی بھی آسٹریلین فیس بک گروپ کو جوائن کر لیجیے تاہم لب لباب یہ کہ قریب ۲۵ ہزار آسٹریلین ڈالر ایک بیچلرز سمسٹر کے ایڈوانس جمع کروانے لازمی ہیں۔ اس کے علاوہ بینک سٹیٹمنٹ الگ جس کے بارے میں میرے پاس معلومات نہیں تاہم کوشش کروں گا کہ مل سکے۔ گوگل کے مطابق قریب ۲۵ ہزار ڈالر ہی کی بینک سٹیٹمنٹ بھی درکار ہوتی ہے لیکن مجھے اس انفو پر یقین نہیں۔ سٹوڈنٹ ویزے پر آپ آن پیپرز محدود گھنٹے کام بھی کر سکتے ہیں تاہم عملی طور پر مقررہ وقت سے زیادہ کام کرنے کی جگاڑ نکل آتی ہے۔ مزید برآں سٹوڈنٹ ویزا ختم ہونے کے بعد ورک پرمٹ حاصل کرنا شاید آسان ہوتا ہے تاہم ایک بار پھر، میری معلومات اس ضمن میں محدود ہیں۔ یاد رہے، سٹوڈنٹ ویزے کی میعاد ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کے بعد ملنے والے ورک پرمٹ کی بھی میعاد ہوتی ہے اور ایک نہ ایک دن آپ نے پی آر کے لیے اپلائی کرنا ہی ہوتا ہے۔ ہاں سٹوڈنٹ ویزے پر پہنچ کر آپ آسٹریلیا میں محدود مدت کے لیے رہ سکتے ہیں اور تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ویزے پر آپ کی فیس کسی آسٹریلین ریزیڈینٹ گا شہری سے تقریباً دوگنی ہوتی ہے۔ مزیدبرآں آپ دوران تعلیم آسٹریلیا میں مقیم رہتے ہیں جس کے پی آر اپلائی کرتے ہوئے غالبا کچھ پوائینٹس ملتے ہیں۔ نیز، پی آر میں آسٹریلین ڈگری کے بھی پوائینٹس ہوتے ہیں۔ لب لباب یہ، کہ پاکستان سے نکلنا چاہتے ہیں اور بینک میں پیسہ موجود ہے، عمر زیادہ نہیں تو اس راستے سے آسٹریلیا قانونی طریقے سے داخل ہوا جا سکتا ہے۔

۲۔ پرمننٹ ریزیڈینس ۱۸۹

۱۸۹ سکلڈ انڈیپینڈینٹ ویزا سب کلاس ہے، اور یہ خالصتا آپ کے skills اور آسٹریلیا میں ان کی ضرورت کے مطابق دیا جاتا ہے۔ پی آر پوری فیملی کو ملتی ہے (جن کا نام درخواست میں دیا گیا ہو)۔ پرمننٹ ریزیڈینس میں آپ کے پاس سرکاری نوکری اور ووٹنگ کے علاوہ تمام وہ حقوق میسر ہوتے ہیں جو ایک آسٹریلین پاسپورٹ ہولڈر کو دستیاب ہیں۔ پرمننٹ ریزیڈینس حاصل کرنے کے بعد قریب چار برس آسٹریلیا میں گزار کر شہریت حاصل کی جا سکتی ہے۔ میں اسی سب کلاس کے ذریعے آسٹریلیا پہنچا ہوں۔ اس سٹریم میں ویزا اپلائی تو ہوجاتا ہے تاہم کامیابی کے لیے آپ کے پاس کم سے کم ۱۶ سالہ بیچلرز ڈگری، اپنی تعلیم کے حساب سے دس سالہ عملی تجربہ، IELTS میں ۸، ۸، ۸، ۸ یا پھر PTE میں ۷۹ سے اوپر پوائینٹس، ۳۵ کے اندر اندر عمر اور سب سے اہم۔۔۔ آپ کی قسمت، کہ جس فیلڈ سے آپ کا تعلق ہے اس کی آسٹریلیا میں ڈیمانڈ کتنی ہے۔ فی الوقت میڈیکل، آئی ٹی اور فائنانس ہی کی قلت ہے۔ مارچ ۲۰۲۲ تک ۱۳،۳۲۲ درخواستیں پینڈنگ ہیں۔ اس پر مزید بات آگے چل کر کرتے ہیں۔

۳۔ پرمننٹ ریزیڈینس ۱۹۱

۱۹۱ سکلڈ انڈیپینڈینٹ ریجنل ویزا سب کلاس اور ۱۹۱ میں بس ایک فرق ہے۔ ۱۹۱ میں آپ ایک خاص ریجن یا سٹیٹ میں تین برس گزارنے کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ ویزا زیادہ تر ایسی سٹیٹس فراہم کرتی ہیں جہاں آباد کاری جاری ہو اور جہاں بڑے شہروں جیسے میلبرن اور سڈنی جیسی سہولیات نسبتا کم میسر ہوں۔ اس کا بنیادی مقصد ریجنل یا دور دراز کم آباد علاقوں کو بسانا ہوتا ہے۔

۴۔ ورک پرمٹ ۴۹۱

یہ دراصل وہ ویزا ہے جس کی گرانٹ آسٹریلیا کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ ۱۸۹ اور ۱۹۱ کے برعکس ۴۹۱ میں آپ حکومت کو ٹیکس دینے کے پابند ہوتے ہیں تاہم حکومت آپ کو ٹیکس بینیفٹ دینے کی پابند نہیں ہوتی۔ آپ گھر یا زمین نہیں خرید سکتے، میڈیکل انشورنس وہ نہیں ہوتی جو ریزیڈینس یا شہریوں کو ملتی ہے۔ سٹوڈنٹ ویزے کے بعد اسی ویزے پر کام کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے حال ہی میں ہزاروں ورکرز کی قلت سے مطابق جو خبریں سنی ہیں اس کا زیادہ تر حصہ میری معلومات اور مشاہدے کے مطابق اسی ویزے کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔

متفرقات:

آسٹریلیا کی شہریت کا راستہ پرمننٹ ریزیڈینس سے ہو کر گزرتا ہے۔ براہ راست پرمننٹ ریزیڈینس حاصل کرنا بہرحال ایک مشکل کام ہے۔ ماضی میں نو برس آسٹریلیا پر لبرل پارٹی حکمران رہی ہے۔ لبرلز امیگریشن کے حق میں نہیں لہذا نو برس انہوں نے آسٹریلین امگریشن کو مشکل سے مشکل تر بنانے میں صرف کیا۔ ان کے پاس اس کے الگ جواز موجود تھے جن سے اتفاق یا اختلاف ہو سکتا ہے۔ امیگریشن کی راہ میں روڑے اٹکانے کی چند مثالیں پروسیسنگ ٹائم میں ٹھیک ٹھاک اضافہ، ۱۸۹ کو چھوڑ کر ۱۹۰ اور ۴۹۱ ویزے کے اجراء میں اضافہ، ویزا درخواستوں کی کڑی سکروٹنی شامل ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیک لاگ یعنی پہلے سے موجود ایسی درخواستیں جن کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، کی تعداد بڑھتی رہی۔ ۲۰۲۰ مارچ میں میرا ویزا آیا۔ اس کے ٹھیک پانچ دن بعد ویزے آنا بند ہوگئے۔ اسی سال کرونا کی عفریت نے بھی دنیا بھر کو دبوچ لیا۔ ویزا درخواستوں پر جو کام جاری تھا وہ بھی قریب ڈیڑھ برس بند رہا۔ نئے لوگ آنا رک گئے تاہم اس وقت پتہ نہ چلا کیونکہ ملک لاک ڈاؤن میں تھا۔ ملک لاک ڈاؤن سے باہر نکلا تو صورتحال نارمل ہونا شروع ہوئی تاہم چونکہ آسٹریکین ورک فورس کا قابل ذکر حصہ امگرینٹس خاص طور پر سٹوڈنٹس اور تعلیم کے بعد ملنے والے ورک پرمٹ پر منحصر تھا جو پہلے بتائی گئی وجوہات کے باعث بند تھے، لہذا اب آسٹریلیا کو ورک فورس کی قلت کا سامنا ہوا۔

چند ماہ قبل الیکشن میں لبرلز کے نو سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ لیبر نے حکومت سنبھالی۔ لیبر پارٹی امگریشن کے حق میں ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ بارڈر کھول دیں۔ آپ کو جو تاثر مل رہا ہے وہ درست نہیں۔ امگریشن زیادہ آسان کرنے کے خلاف لبرلز کا پریشر الگ ہے اور عوام کے ایک حصے کا دباؤ الگ۔ لہذا لیبر بھی ایک حد سے زیادہ فری نہیں کر سکتی امگرینٹس کو۔ اب افرادی قوت کو جس طرح پورا کیا جائے گا اس کا طریقہ کار سب سے پہلے تو زیادہ سے زیادہ سٹوڈنٹ ویزے جاری کر کے اور اس کے بعد زیادہ سے زیادہ ورک پرنٹ جاری کرنے پر مبنی ہوگا۔ مزیدبرآں ایک آدھ دن قبل ورک پرمٹ کے دورانیے میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ۱۸۹ اور ۱۹۱ کی جو ویزا پروسیسنگ بند تھی وہ بھی کھل چکی ہے، سو اب پچھلا بیک لاگ کلئیر کر کے بھی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش ہوگی۔

جو احباب اس بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے عرض ہے، کہ سٹوڈنٹ ویزے کے لیے ٹھیک ٹھاک رقم اور دیگر لوازمات درکار ہیں جو اوپر درج کی جا چکی ہیں، دوم، ورک پرمٹ یا ۴۹۱ ویزا براہ راست یوں سمجھ لیں تقریباً نہیں ملتا۔ تیسرا راستہ پرمننٹ ریزیڈینس کا ہے، اس کے بارے میں بتاتا چلوں کہ پرمننٹ ریزیڈینس یہاں چار چار سال سے مقیم سٹوڈنٹس کے لیے اب بھی اس وقت ایک خواب بنا ہوا ہے۔

یقین کیجیے میری ہرگز ایسی نیت نہیں کہ میں کسی کے خواب چکنا چور کروں، تاہم آسٹریلین حکومت نے امگریشن کا جو طریقہ کار متعین کیا ہے اس کے حساب سے بیشک آسڑیلیا کو موجودہ قلت سے بڑھ کر ہی کمی کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے، اوپر دیے گئے طریقہ کار کے علاوہ کوئی راستہ میرا نہیں خیال کہ مل سکے۔ ایک بار پھر، یہ یاد دہانی بھی کرواتا چلوں کہ بھارت، آسٹریلیا کا سٹریٹیجک پارٹنر ہے اور ویزے کے اجراء پر بھارتیوں کی سکروٹنی کسی حد تک ہم پاکستانیوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ بھارت اور چین کی آبادی اور تعلیم و تجربے کی شرح ہم سے کہیں زیادہ ہے لہذا درخواستوں میں تناسب اور پھر کامیابی کا تناسب بھی انہی کے لیے زیادہ ہوگا۔

لہذا یہ خبر ان لوگوں کے لیے شاید پھر خوشی کی نوید ہے جو پہلے سے پراسیس میں ہیں، تاہم نئے لوگوں کے لیے میرا نہیں خیال اس کا کوئی خاص فائدہ ہونا ہے۔ لگے ہاتھوں ۱۸۹ اور ۱۹۱ ویزا کا مختصراً پراسیس بھی بتاتا چلوں۔

سب سے پہلے آپ Australian Immi سائٹ پر اکاؤنٹ بناتے ہیں اور انہیں درکار تمام معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس میں وہ تمام معلومات شامل ہیں جن کی بنیاد پر آپ کو پوائینٹس ملتے ہیں۔ تمام انفارمیشن دینے کے بعد آپ کے پوائینٹس کا تعین ہوتا ہے اور آپ EoI یا Expression of Interest سبمٹ کر دیتے ہیں۔ اب آپ pool میں ہیں۔ آپ سے پہلے بھی کئی لوگ پول میں شامل تھے۔ آپ کے پوائینٹس کی بنیاد پر غالبا ہر دو ہفتے بعد آسٹریلین سکل مارکیٹ کی بنیاد پر اس وقت تک سب سے زیادہ پوائینٹس رکھنے والی ایک مخصوص تعداد کو Invitation to Apply یا مختصرا انوائٹ بھیجا جاتا ہے۔ انوائٹ کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ شارٹ لسٹ اور پول سے منہا ہو چکے ہیں۔ اب آپ کے پاس غالبا دو یا تین ماہ ہیں ان تمام معلومات کے دستاویزی ثبوت فراہم کرنے کے جن کی بنیاد پر آپ کے پوائینٹس کا تعین ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کو فیس بھی ادا کرنی ہوتی ہے جو غالبا ۴۰۰۰ آسٹریلین ڈالر فی کس ہے۔ اس کے علاوہ میڈیکل بھی کم از کم امارات میں اچھا خاصہ مہنگا ہوتا ہے، میرے میس میں پانچ بندوں کا میڈیکل قریب چھ ہزار درہم میں ہوا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر آپ کے آخری پانچ سال پاکستان سے باہر کسی ترقی یافتہ ملک میں گزرے ہیں تو آپ کا سیکیورٹی چیک نسبتا آسانی سے پاس ہونے کا امکان ہے۔

انوائٹ کے بعد آپ تمام معلومات و شواہد فراہم کر کے فیس جمع کروا کے درخواست سبمٹ کرتے ہیں۔ اس کے بعد پروسیسنگ ٹائم شروع ہوتا ہے۔ میرے وقت میں یہ ٹائم کوئی دس ماہ جاری رہا۔ اس کے بعد آپ کو HAP ID فراہم کی جاتی ہے جس کے تحت آپ میڈیکل ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ یہاں تک بات آگئی تو سمجھ لیں ۹۵ فیصد معاملہ ڈن ہے۔ میڈیکل ٹیسٹ کے ایک ماہ کے اندر آپ کو ایک رات اچانک خوشخبری والی ای میل ملتی ہے جسے امگرینٹس کے حلقوں میں “گولڈن ای میل” کہا جاتا ہے۔

میرے کیس میں گولڈن ای میل صبح کے چار بج کر چھتیس منٹ پر موصول ہوئی۔ کچھ منٹ تو مجھے سمجھ نہیں آئی، اور جب سمجھ آئی تو میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل پڑے۔ صبح ساڑھے چار بجے میں ابو ظہبی بنی یاس والے گھر میں چیخیں مارتا پھر رہا تھا۔ وہاں سے آسٹریلیا قدم رنجہ ہونے تک ایک داستان ہے جو پھر کبھی۔

نوٹ: مندرجہ بالا مضمون میں ۱۸۹ کے علاوہ کئی معاملات پر میری معلومات بہت پختہ نہیں لہذا سیکنڈ آپنین لینا مت بھولیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے