اہم خبریں

حکومت علی وزیر کا کیس بھی دیکھ لے، حلقہ نمائندگی کے بغیر ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ

ستمبر 7, 2022 2 min

حکومت علی وزیر کا کیس بھی دیکھ لے، حلقہ نمائندگی کے بغیر ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ

Reading Time: 2 minutes

اسلام آباد (۷ ستمبر ۲۰۲۲)
مطیع اللہ جان
شیریں مزاری اغوا کیس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران غیر قانونی حراست سے متعلق سپیکر قومی اسمبلی کی دو رپورٹیں عدالت میں پیش کی گئیں۔

بدھ کو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بلوچ طالب علموں کو ہراساں کیے جانے اور لاپتہ افراد کے معاملے پر اٹارنی جنرل کو مناسب اقدامات کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومتیں صرف رپورٹیں مرتب کرتی رہتی ہیں اور شھریوں کو غیر قانونی طور پر اٹھائے جانے کو روکنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ اگر عملی اقدامات ہوتے تو تشدد کے الزامات کبھی نہیں لگائے جا سکتے۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے کچھ کہنا چاہا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پچھلے تین سال کے عدالتی احکامات اٹھا کر دیکھ لیں، علی وزیر کا کیس دیکھ لیں ان کے حلقے کے لوگ اب بھی نمائندگی کے بغیر ہیں، ان کا کیس ہمارے دائرہ کار میں نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نو ستمبر کو لاپتہ افراد کا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر ہے اور امید ہے کہ اس وقت تک لاپتہ افراد بازیاب ہو چکے ہوں گے، اس عدالت نے آئین کے تحت چلنا ہے اور ہمارے سویلین بالا دستی ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے، بدقسمتی سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی لاپتہ افراد بازیاب ہونے کے بعد کچھ نہیں بتاتے۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر کام ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ تمام کیسز پچھلے تین سال سے اسلام آباد میں لاقانونیت کی علامت بن چکے ہیں، یہ ریاست اور اس کی پولیس کی ناکامی ہے، یہ معلوم کریں کہ ایسے مقدمات کی تحقیقات کیوں نہیں ہو پا رہی۔ عدالت میں آج افراسیاب خٹک صاحب آئے تھے، ایسے لوگوں پر مشتمل کمیشن بنائیں، ٹی او آرز بنائیں اور ان مسائل کا حل نکالیں، شھریوں کو لاپتہ کرنے جیسی چیزیں بند ہونی چاہئیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کیوں گھبراتے ہیں، ریاست انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں سے کیوں ڈرتی ہے، ان لوگوں پر مشتمل کمیشن بنائیں۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ ان کی رائے میں اب معاشرے کا قرض چکانے کا وقت آ گیا، جن لوگوں نے اس کام میں زندگی گذار دی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا عدالتی احکامات آپ کے سامنے ہے، آج ہم کچھ مزید کاروائی نہیں کرتے اور آپ کو کچھ کرنے کا موقعہ دیتے ہیں، تاکہ آئیندہ ایسا کچھ نہ ہو، یہ سلسلہ رکا نہیں ہے، اسلام آباد کے 1400 کلومیٹر کے ایک علاقے کو ایک ماڈل محفوظ علاقہ بنایا جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ایک بیماری بن چکی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بیماری یہ ہے کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے اسے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے میں مزہ آتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈاکٹر شیریں مزاری سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کے دور میں کہا تھا کہ اسلام آباد میں دوبارہ کوئی بغاوت کا کیس نہ بنے مگر پھر بھی بن گیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو دشنام ترازی کرے گا، اداروں کے خلاف بدزبانی کرے گا اس کے خلاف کاروائی ہو گی، ایک ریٹائرڈ جج پر مشتمل کمیشن برائے لاپتہ افراد کی رپورٹ بھی تیار ہے اور وہ ہیش کی جائے گی۔

ایڈوکیٹ فیصل چودھری نے کہا اٹارنی جنرل کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر شھباز گل پر مبینہ تشدد کے حوالے سے حکومت نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بھی کمیشن بنانا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے