اہم خبریں متفرق خبریں

توہین عدالت کیس میں عمران خان کا جواب مسترد، فرد جرم عائد ہوگی

ستمبر 8, 2022 13 min

توہین عدالت کیس میں عمران خان کا جواب مسترد، فرد جرم عائد ہوگی

Reading Time: 13 minutes

اسلام آباد (۸ ستمبر ۲۰۲۲)
مطیع اللہ جان
اسلام آباد کی ماتحت عدلیہ کی خاتون جج کا نام لے کر عوامی اجتماع میں دھمکانے پر توہین عدالت کی کارروائی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل میں کہا کہ پوری تصویر دیکھنا ضروری ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کو فراخدلی کے مظاہرے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہے، یہ ملزم بھی وہی ہے اور دلائل بھی وہی ہیں، وہ محض نوٹس تھا اور یہ ایک شو کاز نوٹس ہے، شو کاز نوٹس کا جواب بھی دیا جا چکا ہے۔

اٹارنی کے تفصیلی دلائل خبر میں آگے چل کر مگر پہلے ایڈوکیٹ حامد خان نے دلائل کا آغاز کیا۔

ایڈوکیٹ حامد خان نے دلائل میں بتایا کہ ایک اضافی جواب عدالت کی آبزرویشنز کو مد نظر رکھتے ہوئے جمع کرایا گیا ہے، ہم معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، مختصراً یہ کہ سپریم کورٹ کے دو فیصلوں سے (دانیال عزیز اور طلال چودھری) ہمیں اس کیس کا فرق بتانے کے لیے کہا گیا تھا، میں ۲۰۱۴ میں عمران خان سے متعلق ہی ایک توہین عدالت کیس کا جائزہ لوں‌گا.

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ان تین فیصلوں کے حوالے کا مقصد تین قسم کی توہین عدالت سول اور جوڈیشل توہین کو اجاگر کرنا تھا، ہم اس کیس میں عدالت پر تنقید کی بات نہیں کر رہے بلکہ کرمنل (مجرمانہ) توہین کی بات کر رہے ہیں، دوسرا ضلعی عدالت پر دھمکی اور اس کے خلاف اشتعال دلانے کا عمل انتہائی سنگین جرم ہے، سپریم کورٹ کا ۱۹۹۸ میں توہین عدالت کیس میں ایک فیصلہ بھی ایسی ہی صورت حال متعلق تھا جس میں سات ججوں کے بنچ نے قرار دیا تھا کہ محض معافی کافی نہیں اور اس کے قبول ہونے کا انحصار معافی میں سچائی اور خلوص پر ہو گا، معافی غیر مشروط اور بغیر تحفظات کے اور نیم دلانہ نہیں ہونی چاہئیے۔ ایک فیصلہ کے مطابق یہ قرار دیا گیا کہ معافی محض جرم کو سنگینی کو کم کر سکتی ہے، مگر معافی بغیر پچھتاوے اور افسوس اور اپنے اقدام کے کسی جواز کے بغیر بھی اہمیت نہیں رکھتی، یہ تاثر نہیں بننا چاہئیے کہ عدالت پر غیر مناسب اور شدید تنقید کے بعد معافی مانگ کر جان چھڑائی جا سکتی ہے کیونکہ ایسی صورت میں عدالت اپنا اختیار اور احترام کھو دے گی۔

ایڈوکیٹ حامد خان نے عدالت کے کہنے پر پھر توہین عدالت کا قانون پڑھا جس میں ججوں پر ذاتی حملے سے متعلق بات کی گئی تھی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کسی شخص کا رتبہ، اس کے خطاب کا ماحول بھی جرم کی سنگینی بھی اضافہ کرتا ہے، اگر اس جج کیخلاف کوئی شخص کوئی اقدام اٹھا کیتا تو کون ذمے دار ہوتا، آپ کو اس دن کہا تھا مگر اس کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے، کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے ان قابل نفاذ فیصلوں کے مطابق ہے؟ آپ نے جواب میں اپنے جرم کا جواز دینے کی کوشش کی ہے، کیا کوئی سابق وزیراعظم قانون سے لاعلم ہونے کا جواز دے سکتا ہے، ہم نے گذشتہ سماعت پر بھی بتایا کہ یہ ایک سنگین جرم ہوا ہے مگر اس سنگینی کا احساس قطعًا نہیں ہوا۔

جسٹس بابر ستار نے ایڈوکیٹ حامد خان کو شو کاز نوٹس کا پیراگراف ۵ پڑھنے کا کہا، جس کو حامد خان نے پڑھا جس میں لکھا تھا کہ مذکورہ اقدام کرمنل اور جوڈیشل توہین ہے۔ جس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اس سے واضح ہے کہ یہ دونوں جوڈیشل اور کرمنل توہین کی کاروائی ہو رہی ہے۔

ایڈوکیٹ حامد خان نے پھر اپنا دوسرا جواب پڑھنا شروع کیا جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان نے لفظ مبینہ تشدد استعمال نہیں کیے، کیا یہ فیصلے جلسے میں ہوں‌گے یا عدالتوں میں، یہ عدالت بہت شعور رکھتی ہے، ۷۰ سالوں میں اچھا نہیں ہوا ہو گا، اگر یہی الفاظ اور لہجہ سپریم کورٹ کے جج کے لیے استعمال ہوتا تو تب بھی یہی جواب ہوتا؟ اس موقعے ہو عمران خان نے ساتھ بیٹھے وکیل ایڈوکیٹ شعیب شاہین سے اشارے سے پوچھا کہ کیا میں روسٹرم پر جا کر جواب دوں، اس پر ایڈوکیٹ شعیب شاہین نے بظاہر انہیں روک دیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بظاہر اشتعال دینے کی کوشش کی گئی کہ جج کو کوئی بھی شخص نقصان پہنچائے، اگر کل وہ خاتون جج کہیں موٹر وے پر کھڑی ہو اور کوئی بھی شخص اگر اس کو نقصان پہنچا دے تو کون ذمے دار ہو گا؟

ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ یہ اس نوعیت یا لیول کی دھمکی نہیں تھی اور ہم یقین دلانا چاہتے ہیں کہ خاتون جج کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

الفاظ میں لفظ قانونی ایکشن نہیں بولا جا سکتا، آپ ایک جلسے میں بھی کسی جج کو قانونی ایکشن کا کیسے کہہ سکتے ہیں، قانون میں لیگل ایکشن کا بھی فورم دیا گیا ہے.

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون میں آپ ایک جلسے میں بھی جج کے خلاف قانونی کاروائی کا نہیں کہہ سکتے۔

ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ ہم اس حد تک اپنی وضاحت دینے کو تیار ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا یہ صرف خطرے کی گھنٹی نہیں آپ کو وڈیو میں دکھا سکتے ہیں، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ملزم نے بعد کے جلسوں میں بھی اپنے الفاظ کا جواز دیا اور ان کا دفاع کیا۔

ایڈوکیٹ حامد خان نے ایک خبر کا حوالہ دیا جس میں عمران خان یہ الفاظ استعمال نہ کرتے اگر شھباز گل پر تشدد نہ ہوتا،

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اس سے لگتا ہے کہ بعد میں بھی اپنے الفاظ کا دفاع کرتے رہے ہیں۔
ایڈوکیٹ حامد خان نے سپریم کورٹ کے ۲۰۱۴ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا جس بارے میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے عمران خان کو وارننگ دی تھی اور یہ حوالہ دے کر آپ خطرناک سمت میں جا رہے ہیں۔ اگر آپ ملزم کے الفاظ کا جواز دے رہے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ کوئی پچھتاوا نہیں، ممکنہ طور پر نہال ھاشمی کا کیس ایسا ہی تھا مگر اس میں جج کا نام بھی نہیں لیا گیا تھا، مگر زبان اور لہجہ سپریم کورٹ کے ججز کے متعلق اتنا ہی خطرناک تھا۔ اس موقعے پر عمران خان بہت خاموشی اور غور سے اپنے وکلا کے دلائل اور ججز کی ریمارکس سنتے رہے- ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ عمران خان ۲۰۱۴ والے کیس کی طرح اپنی وضاحت دے رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کیس میں کرمنل توہینِ عدالت نہیں ہوئی تھی۔

ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ اپنی دوسرے جواب میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ہم تمام عدلیہ کا احترام کرتے ہیں- جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اگر یہ عدالت عمران خان کے خلاف فیصلہ سنائے تو کیا عمران خان اگلے جلسے میں ہمارے خلاف ایکشن لینے کا اعلان کرینگے ؟ کیونکہ ایسا وہ پہلے کر چکے ہیں- ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا اس رتبے کے سیاستدان کے الفاظ پر بھروسا کرنا ہو گا، جسٹس ستار نے کہا اسی لیے ایسے سیاستدان کو اور بھی محتاط رہنا چاہئیے ۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کچھ مدینہ منورہ میں ہوا وہ کیا تھا، وہ اشتعال انگیزی تھی، جس طرح کا لہجہ ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں استعمال کیا گیا یہ بہت اہم ہے۔ اس موقعے پر عمران خان نے بظاہر دوبارہ ساتھ بیٹھے شعیب شاہین سے روسٹرم پر جانے کے لیے مشورہ مانگا مگر بظاہر انہیں روکا گیا۔ عمران خان کے چہرے پر مایوسی عیاں تھی۔

ایڈوکیٹ حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جس طرح سپریم کورٹ نے اپنے پہلے فیصلوں میں فراخدلی کا ثبوت دیا یہ عدالت بھی ایسا کرے، سیاستدان کبھی کبھی کام کے بوجھ اور زبان کے پھسلنے سے بھی ایسا ہو جاتا ہے، شھباز گل ہر تشدد کی وجہ سے عمران خان نے یہ الفاظ کر دیے، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے پوچھا کہ چھ میڈیکل بورڈ تشکیل دیے گئے تھے اور کیا انکے بارے میں عمران خان کو بتایا گیا تھا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم اس میں نہیں جاتے، آپ نے اپنے جواب میں شھباز گل پر تشدد کے حوالے سے مبینہ کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا۔
ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ عمران خان کے لیے جسمانی تشدد کا جو تاثر تھا وہ بھی پریشان کن تھا، وہ خواتین کے حقوق کے کیے آواز اٹھاتے رہے ہیں، ایک تاثر دی گیا کہ خاتون جج کو نشانہ بنایا گیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا یہ خاتون جج کی نہیں بلکہ ایک جج کی بات ہو رہی ہے، ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا گیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہر سیاسی جماعت سوشل میڈیا کو پراپیگنڈا کے کیے استعمال کر رہی ہے، اور عدلیہ بھی خاص ھدف ہے مگر ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر کوئی سیاسی لیڈر چاہے تو یہ سب رک سکتا ہے، سب سیاسی جماعتیں یہ کر رہیں ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے حامد خان ایڈوکیٹ کو اپنے جواب پڑھنے کا کہا اور کہا کہ جواب کے مطابق عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ خاتون جج کے خلاف قانونی ایکشن کے الفاظ سے مراد اپیل دائر کرنا تھا تو پھر بھی ایسے الفاظ کا کیا جواز تھا۔ ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ عمران خان سی الفاظ کے چناؤ میں غلطی کا احتمال موجود ہے۔ دانیال عزیز اور طلال چودھری کے کیس میں ایک سے زیادہ تقاریر کی گئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دوبارہ بتا دوں کہ ججوں پر تنقید کی ہمیں پرواہ نہیں، اور ان دو کیسوں میں توہین کا عنصر کم تھا مگر سپریم کورٹ نے پھر بھی انہیں سزا سنائی گئی مگر یہ کیس تو کرمنل توہین عدالت ہے جسکا نوٹس دنیا بھر لیتی ہے اور ہم بھی لینگے، تو دانیال عزیز اور طلال چودھری کے کیسوں کا حوالہ نہ دیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ساتھی جج جسٹس بابر ستار نے دو دن پہلے ایک توہین عدالت درخواست خارج کی اور اس میں یہاں تک کہا گیا تھا کہ ملزم کیمطابق ججز باہر نہیں نکل سکیں گی تو وہ درخواست تو دوسرے دو کیسوں سے بھی زیادہ خطرناک تھی۔

ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں عدالتی تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو اس سے بھی زیادہ تحمل کے لیے تیار ہیں مگر یہ تحمل کرمنل توہین عدالت سے متعلق نہیں۔

ایڈوکیٹ حامد خان نے کہا کہ عدالت کی آبزرویشنز کی وجہ سے ہی ہم نے بار بار پچھتاوے کا لفظ استعمال کیا ہے، عمران خان کبھی بھی عدالت کے بارے میں برے خیالات نہیں رکھتے- ہم وعدہ کرتے ہیں کہ مستقبل میں ہم زیادہ محتاط ہونگے،

سابق وزیر اعظم عمران خان آج پانچ رکنی بنچ کے سامنے دوسری مرتبہ پیش ہوئے، چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل سابق وزیر اعظم کیخلاف توہین عدالت کی کاروائی کر رہا ہے جسکی وجہ انکا ایک احتجاجی ریلی سے وہ خطاب ہے جس میں انہوں نے ایک خاتون جج کا نام کے کر انکے خلاف کاروائی کا اعلان کیا تھا۔

آج کی سماعت میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور سابق اٹارنی جنرل فار پاکستان ایڈوکیٹ منیر اے ملک، پاکستان بار کونسل کے نمائندہ ایڈوکیٹ اختر حسین اور سابق اٹارنی جنرل ایڈوکیٹ مخدوم علی خان بطور عدالتی معاون پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کی بھرپور حمایت کی، دلائل کے آغاز میں کہا کہ اس سے پہلے ۲۰۱۴ میں بھی عمران خان نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایسے ریمارکس دوبارہ نہیں دینگے، it’s like de Javu
مگر عمران خان نے دوبارہ ایسا کیا، میرے نزدیک یہ جوڈیشل توہین بھی بنتی ہے، یہ صرف اس جج کیخلاف اس جلسے کی بات نہیں بلکہ ایک بعد کے ایک جلسے کی ریکارڈنگ میں بھی ظاہر ہے کہ ایسے الفاظ دوہرائے گئے، ان تمام تقریروں کا ویڈیو ریکارڈ بھی جمع کرایا جائے گا، اپنے جواب میں کوئی پچھتاوے کا ذکر نہیں تھا اور پھر عدالت کے ریمارکس کے بعد ایک اور جواب تیار کیا گیا اور پچھتاوے کا ذکر شامل کیا گیا، سپریم کورٹ نے اسے شخص کو جو عدالت میں کھڑا تھا اس وقت بھی ایک وارننگ دی تھی اور کہا تھا کہ عوامی تقاریب میں سیاستدانوں کو محتاط الفاظ استعمال کرنے چاہئیں، یہ کوئی عدالتی ریمارکس نہیں تھی بلکہ ملزم کو دی گئی باقاعدہ وارننگ تھی، صرف ایک بیان بغیر کسی حلف نامے کی کوئی حیثیت نہیں، اور عمران خان کے خاتون جج سے متعلق الفاظ کے بعد جو اثرات مرتب ہوئے تو وہ سوشل میڈیا سے عیاں ہے جسکا ریکارڈ ہیش کیا جائے گا، ایسی تقریر سے عوام میں کیا تاثر پیدا ہوا ہو گا، تو میں ان نکات پر بات کرونگا۔

عدالتی معاون ایڈوکیٹ منیر احمد خان نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی تقریر سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ یہ اشتعال انگیز اور متنازعہ تھی، اور ایسے وقت میں دی گئی کہ زیر التوا عدالتی معاملے پر بات کہ گئی۔ اب اگر عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کہ گئی تو یہ طے شدہ ہے کہ توہین عدالت کا اختیار استعمال بہت کم حالات میں کرنا چاہئیے، ستر سال پرانے ایک کیس میں جو توہین عدالت سمجھا گیا آج کے دور میں وہ توہین نہیں ہو سکتی، میں نہیں سمجھتا کہ باہر ہونے والی تقریروں سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کی زبردست ساکھ اور کارکردگی اس سماعت میں زیر بحث تقریر کے الفاظ سے متاثر نہیں ہو سکتی، توہین عدالت کے قانون میں بھی توہین عدالت کی کاروائی نظام انصاف کو صرف انتہائی نقصان دے اثرات کو روکنے کے کیے کی جا سکتی ہے، اب بات کرتے ہیں کرمنل توہین یعنی جج کو دھمکانے کا اقدام، کیونکہ ایسی کاروائی کا مقصد عدالت کی ساکھ اور اس پر عوامی اعتماد بحال کرنا ہے تو ایسی کاروائی کی پہلی ترجیح معافی اور پھر ملزم کا اسکے بعد کا رویہ ہے، جنرل اسلم بیگ کیس میں اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حاجی سیف اللہ کیس میں اس نے عدالت کو پیغام بھیجا تھا، گو کہ پیغام رساں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اس پیغام کا ذرا برابر بھی اثرانداز ہونے کا امکان نہیں تھا، اس کیس میں بھی کوئی معافی نہیں مانگی گئی تھی اور کیس ختم کر دیا گیا تھا۔ اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں کہ اسلم بیگ کون تھا؟ دیکھیں ایسا اسلم بیگ اور عمران خان کیس میں ہوا ہو گا مگر ایسے بہت سے دوسرے کیسوں میں نہیں ہوا،
تو یہ الفاظ کہ پچھتاوا ہے، معلومات نہیں تھی، تشدد کے الزامات تھے اور فراخدلی کا مظاہرہ کریں۔

جسٹس بابار ستار نے پوچھا کہ عدالتوں کی ساکھ کا کیا ہو گا جہاں یہ تاثر عام ہو کے طاقت ور لوگوں کو عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں اور کمزور لوگوں کو سزا مل جاتی ہے، ایڈوکیٹ منیر ملک نے کہا صرف یہ کاروائی بھی لوگوں کو ایک ٹھوس پیغام کو گا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوامی جلسے میں ڈسٹرکٹ ججز کو نام لیکر شرمندہ کیا جا سکتا ہے، ایڈوکیٹ منیر ملک نے کہا کہ یہ ساری کاروائی جو اب تک اسلام آباد ہائیُکورٹ جیسی زبردست عدالت نے کی ہے ایک ٹھوس پیغام ہے اور اس لیے توہین عدالت کی کاروائی ختم کی جائے۔

ایڈوکیٹ مخدوم علی خان نے بطور معاون عدالت اپنی رائے میں کہا کہ سیاسی گرما گرمی میں سیاستدان جو کہتے ہیں انکے الفاظ کے معانی وہی تسلیم ہونے چاہئیے جو وہ کہتے ہیں یا وضاحت کرتے ہیں، ایسا کرنا آزادئی رائے کے بنیادی حق کے لیے بھی ضروری ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ امریکی صدر کا ٹویٹر اکاؤنٹ کانگریس کی توہین کے بعد بند کر دیا گیا۔ کیونکہ وہاں اقدار کو اہمیت دی جاتی ہے، ایڈوکیٹ مخدوم علی خان نے کہا کہ اس معاملے کا تعلق کسی عدالتی حکم سے نہیں تھا، تاہم امریکہ کے الیکشن ہارنے والے صدارتی امیدوار نے اپنے سپوٹروں سے کہا تھا کہ امریکی سپریم کورٹ پر تنقید نہ کی جائے۔

عمران خان کے خلاف توہین عدالت کاروائی کے متعلق ایڈوکیٹ مخدوم علی خان نے کہا کہ وہ ایڈوکیٹ منیر اے ملک کی اس بات کی تائید کرینگے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی اتنی زبردست اچھی شھرت ہے کہ اسکی ساکھ کو کوئی اپنی تقریروں سے نقصان نہیں پہنچا سکتا، عدالتوں ہر عوامی اعتماد نظام عدل کی کارکردگی میں ہو گی توہین عدالت کے اختیارات سے نہیں۔ آج تک پاکستان میں تقریباً تمام مقبول سیاستدان اور صحافی حضرات توہین عدالت کا سامنا کرتے رہے ہیں، بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد انکے خلاف توہین عدالت کی کاروائی نہیں کی گئی اور سات ججوں نے قرار دیا کہ سیاستدانوں کو جن حالات سے گذرنا پڑتا ہے ان حالات میں انکی تقاریر اور الفاظ پر سخت عدالتی رد عمل مناسب نہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ سب کیس اعلی عدلیہ کے متعلق تھے مگر ضلعی عدالتوں کے متعلق زیادہ حساسیت کیوں نہیں دکھائی جا سکتی۔
یہ تمام مقدمات اعلی عدالتوں کے متعلق ہیں جن کے ججوں کو اتنی فکر بھی نہیں ہوتی۔

جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی وزیر اعظم حکومت سے نکالا جائے تو وہ ایسی باتیں کر سکتا ہے جو ایک عام آدمی کرے تو سزاوار قرار پا سکتا ہے، دوسرا کسی ماتحت عدلیہ کے جج کو ڈرایا دھمکایا جا سکتا ہے اور اسکا اثر دوسرے ججوں پر کیا ہو گا؟

اگر یہی زبان اور لہجہ سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں استعمال ہوتی تو کیا ہوتا؟ ایڈوکیٹ مخدوم علی خان نے کہا کہ ایک ایسے کیس میں میں ہیش ہوا تھا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا دھمکی کی نوعیت ایسی ہی تھی؟ وہ سب تو سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں تھا مگر ایک بھی فیصلہ ماتحت عدلیہ کے جج کو دی گئی دھمکی کے حوالے سے نہیں ہے۔ ایڈوکیٹ مخدوم نے کہا کہ ایک ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کا یوں اس معاملے پر سماعت کرنا بھی کافی ہے، چیف جسٹس نے کہا اس عدالت کی بات کرتے ہیں تو پھر بات یہ ھیکہ اس عدالتی کاروائی کے سرور ہونے کے بعد بھی اسی ایک ہی جماعت کی ایک لیڈر (فواد چودھری) نے اس سے بھی زیادہ دھمکی آمیز زبان استعمال کی ہے اس عدالت کے بارے میں، ہم واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ ملزم کا رویہ اور طرز عمل سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اسے کوئی پچھتاوا ہے۔ ایڈوکیٹ مخدوم علی خان نے کہا کہ پریشانی اور ذہنی دباؤ سے بچنے کے کیے سوشل میڈیا اور اخبارات نہ دیکھیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے ذمے دار سیاستدان ہیں جو اپنے کارکنوں کو نہیں کہتے کہ بطور مسلمان ہمیں ایسے پراپیگنڈا نہیں کرنا چاہئیے، وہ ایسا نہیں کرتے، نہ کریں وہ ملک کو جدھر لیجانا چاہتے ہیں کے جائیں ہمیں اس سی کوئی غرض نہیں۔

ایڈوکیٹ مخدوم نے کہا کہ قانون کے تحت اگر عدالت سزا نہ بھی دے تو سخت وارننگ دے سکتی ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دوسرے جواب سے بھی نہیں لگتا کہ ملزم کو جرم کی سنگینی کا احساس ہے، ایڈوکیٹ مخدوم نے کہا کہ ملزم کا جواب اور پچھتاوا قبول کرتے ہوئے نوٹس واپس لیا جا سکتا ہے، یا پھر ایک اور موقعہ دیا جائے کہ وہ غیر مشروط معافی یا پچھتاوے کے ساتھ نیا جواب جمع کرایا جائے، عدالت فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے توہین عدالت کی کاروائی ختم کرے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا عدالت اب کچھ بھی تجویز نہیں کریگی، ہم نے گذشتہ سماعت میں بہت کچھ کہا تھا۔ ہم توہین عدالت کے معاملے میں آپکی بہت سی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں مگر یہ معاملہ کچھ مختلف ہے۔ ایڈوکیٹ مخدوم نے کہا کہ ایک کیس میں معافی نہیں مانگی گئی مگر عدالت عظمی نے قرار دیا کہ عدالت اپنا وقار توہین عدالت کے اختیار سے نہیں بچائے گئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ایسی رائے تو وہ جج دے سکتا ہے جس کے حوالے سے توہین کی گئی تھی اور ہم نے گذشتہ تاریخ پر تقریباً اس حوالے سے بھی بہت کچھ کہا تھا (چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ملزم کو مقامی عدالت میں جا کر افسوس کا اظہار کرنا چاہئیے تھا)۔

پاکستان بار کونسل کے نمائندہ ایڈوکیٹ اختر حسین نے عدالتی معاونت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی قیادت کو زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئیے، ماضی میں دانیال عزیز اور دیگر کیسز میں غیر مشروط معافی بھی مانگی گئی تھی مگر انہیں سزا ہوئی، اس لیے یہ شو کاز نوٹس درست جاری ہوا ہے اور اگر غیر مشروط معافی مانگی جائے تو پھر عدالت اس ہر غور کر سکتی ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ کس مرحلے پر ملزم غیر مشروط معافی مانگی جا سکتی ہے؟ چیف جسٹس نے کہا یہ کسی مرحلے پر بھی کیا جا سکتا ہے، عمران خان نے پوچھا کہ کھا آپ میرا موقف سننا چاہتے ہیں؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا

گذشتہ سماعت پر عمران خان نے اپنے تحریری جواب میں اپنے الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی تھی مگر عدالت نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہیں نیا جواب دائر کرنے کا کہا تھا، ۷ ستمبر کو جمع کرائے گئے اپنے نئے جواب میں بھی سابق وزیر اعظم نے روایتی “غیر مشروط معافی” مانگنے سے گریز کرتے ہوئے محض پچھتاوے اور افسوس کا اظہار کیا۔ آج عدالت نے عمران خان کے اس دوسرے جواب کا جائزہ لیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان دو بج کر پینتیس منٹ پر سلیٹی رنگ کی شلوار قمیض اور کالی واسکٹ پہنے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور مختصراً کہا کہ آج تو اتنی سیکیورٹی کی گئی ہے کہ جیسے کلبھوشن یادیو آ رہا ہو، معافی سے متعلق ایک صحافی کے سوال پر کہا کہ آپ سے این او سی لے کر بتاؤں گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے