افغانستان میں پاکستان دشمنی کی بنیاداور حقیقت (دوسرا حصہ)
Reading Time: 4 minutesجمعہ خان صوفی
حبیبی صاحب1327 ہجری ،شمسی (1948) میں افغان شوریٰ کے نسبتاً آزاد ساتویں دور کے لئے انتخابات میں پارلمیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔
موصوف سے شاید یہ وعدے وعید کیے گیے تھے کہ ان خدمات کے بدلے وہ وزیر، سفیر یا کسی اور بڑےعہدے پر فائز کیے جائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا ،مایو س ہو کر سرکاری پاسپورٹ پر پاکستان آگئے اور سیاسی پناہ مانگی۔
انٹیلی جنس اداروں کو افغان پارلیمنٹ کےممبر کا اس طرح آنا عجیب لگا اور شاید اُسےافغان حکومت کا نصب شدہ جاسوس سمجھا. اس وجہ سے کراچی میں موصوف کو کئی روز تک نیم خواندہ جاسوسی اہلکاروں کے سامنے تحقیقات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
بعد میں نا م نہاد آزادجمہوری افغانستان کا سربراہ بن کر ریڈیو پاکستان پشاور سے افغان مخالف پروپیگنڈہ میں مصروف رہے۔
اُدھر ریڈیو کابل سے پاکستان مخالف پختونستان کا پروپیگنڈہ جاری تھا اور اِدھر سے افغان مخالف تبلیغات جاری تھیں۔ اگر چہ حبیبی صاحب وزیراعظم سردار شاہ محمود خان کے نسبتاً نرم اور”جمہوری دور "میں آئے تھے۔
پھروہ 1961 میں افغان قونصل جنرل مقیم پشاور غلام حسن خان صافی کی توسط سے معذرت نامہ لکھ کر سردارمحمدداؤد خان کے وزارت عظمیٰ کے آخری وقت میں واپس چلے گئے۔اور مرحوم کی افغان شہریت جو واپس لےلی گئی تھی کو بحال کی گئی ۔
پشتونائزیشن کا یہ سلسلہ جب شروع ہوا تو اس نے سارے میدانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔غور کے علاوہ بخدی(بلخ ،تخارستان، باختریش، ترکستان)اورزرتشت کو پشتونوں سے تناسب دیا گیا ۔ھخامنشیوں کے زمانے کے بیستون (530 قبل از مسیح) اور کوشانی دور کےسرخ کوتل کے کتیبوں میں پشتو کی موجودگی کا ذکر کیا گیا ۔
کوشانی شہنشاہ یما کو پشتون بنایا گیا، محمدشہاب الدین غوری جو غالباٍ مشرقی ایرنی نژادتاجک تھے، کو پشتون بنایا گیا، محمود غزنوی کی ماں جو زابلستان سےتھی اُس کو پختون زادی قرار دیا،سلطان محمود غزنوی اور محمد غوری کے زمانہ میں ملتان کے عرب حکمرانوں کو لودھی افغان بنایا گیا ، احمد شاہ ابدالی کے صوفی ملنگ مشیرصابرشاہ جو لاہور کا باشندہ تھا کو کابلی بنایا گیا، احمد شاہ ابدالی جو ملتان میں پید ہوا تھا، اس کی جائے پیدائش کو ہرات قرار دیا گیا۔”تاریخ خان جہانی مخزن افغانی” کےمولف نعمت اللہ ہروی جو حبیب اللہ کا شی کا بیٹا تھا اور ان کے پیشرووں کا تعلق ہرات سے تھا ،کو پختو ن قبیلے سےجوڑتے ہوئے ان کو ورزئی بنایا گیا۔
ترکی النسل امیرخسرو دہلوی کو کابلی بنایا گیا ۔انگریزوں کے خلاف سردار ایوب خان کی سربراہی میں مشہور جنگ میوند میں ایک افسانوی کردارملالہ کی تخلیق کی گئی ۔ ان تمام استادوں اور صاحب پیشہ لوگوں کو جو برطانوی ہندوستان سے یعنی موجودہ پاکستان کے علاقوں سے خدمات بجا لانے کیلئے افغانستان گئے تھے، پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر انہیں ہندی قرار دیا گیا ،لیکن اگر آپ افغانستان کے وجود میں آنے سے پہلے کی شخصیات جیسے سلطان محمود غزنوی کو ایرانی شہنشاہ بیان کریں تو اسےدشمنی پر مبنی گردانتے ہیں۔
ان کی منطق کے مطابق اگر آپ پیر روشان، رحمان بابا، خوشال خٹک وغیرہ کو جومغلی ہندوستان میں پیدا ہوئےتھے، ہندی يا پاکستانی کہیں تو الامان! افغان مولانا جلال الدین رومی کو بلخی لکھتے ہیں کیونکہ وہ بلخ میں پیدا ہوئے تھے اور بچپن میں کونیا (روم) گئے تھے ۔ اسی منطق سے تو پھر احمد شاہ ابدالی جو ملتان میں پیدا ہوئے تھے اور بچپن میں افغانستان اور پھر ایران گئے تو وہ بھی ملتانی (پنجابی یا سرائیکی) ہوئے۔افغانوں کو بھی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے کہ کسطرح اپنے آپ کو ایران اور پاکستان سے دور ثابت کرنے کے لئے مختلف افسانوں کا سہارا لیں۔
پختونستان کا مسئلہ بھی اس سلسلے کی کڑی ہے جس نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔افغان کہتے ہیں کہ معاہدات انگریزوں کے ساتھ تھے، پاکستان کے ساتھ نہیں تھے، مگر اگر آپ کہیں کہ روس کے ساتھ شمالی سرحد کھینچنے میں تو افغان نہیں تھے اور اب تو دونوں معاہدہ کنندہ گان روسی اور انگریز نہیں رہے ہیں، تو کیا تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ سرحدات قانونی حیثیت کھو چکی ہیں؟ تو جواب ندارد۔ اور حقیقت میں ڈیورنڈ لائن کو امیر عبدالرحمان خان کی خواہش پر کھینچا گیا اورپھر اُسکے پوتے امیر اما ن اللہ خان نے اُسے اُس غزوہ کی بدولت جس نے انہیں غازی بنا دیا ،ایک ڈیجیور بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کیا۔
جس طرح پاکستان قومی سلامتی ریاست ہونے کے ناطے ایک ایسے بھارت مرکوز قومی بیانیے کا شکار نظر آرہا ہے اور جس سے جزوی طور پر گلو خلاصی کی کوشش کی جارہی ہے، اسی طرح افغانستان کے لئے ظاہر شاہ کے دور میں ترتیب شدہ قومی بیانیے نے مشکلات کو جنم دیا ہے اور غیر پختون کھل کر اس سے علیحدگی کا اظہا ر کر رہے ہیں ۔دوسری طرف پاکستان کا بیانیہ مسلم نیشنلزم کی بنیا د پر ترتیب دیا گیا ۔ لیکن وجود میں آتے ہی پاکستان اندرونی اور بیرونی مخاصمانہ ماحول میں پھنس گیا –چین انقلاب کی دگر گونیوں میں مصروف رہا، ایران کو چھوڑ کرپاکستان، انڈیا اور افغانستا ن کی دوطرفہ پاکستان مخالف یکجہتی کا شکار ہوا۔ کیونکہ انڈیا پاکستان کے وجود کو عارضی سمجھتا تھا اور اُس کے لیڈر کھلم کھلا اِس کا اظہار بھی کرتے تھے کہ پاکستان کا قیام عارضی ہے اور جلد یا بدیرپاکستان کواُن کی اپنی ہی شرائط پر واپس بھارت سے جُڑنا ہے، پشتونوں کا ایک طبقہ بھی اِس پروپیگنڈے کا شکار تھا اسلئے پاکستان کے اندر اُن پاکستان مخالف عناصر کو ابھارتا رہا اور خصوصی طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پرانے حلیفوں اور ساتھ ساتھ افغانستان کو پاکستان کے خلاف تقویت دیتا رہا، بلکہ پختونستان کے سٹنٹ کو پیدا کروانے اور اسکو مالی امداد فراہم کرنے میں انڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان کو مجبوراًاسلا میت کی طرف جانا پڑا ۔ روز اول سے پاکستان کی خواہش رہی کہ افغانستان کیساتھ اچھی ہمسائیگی اوربرادرانہ تعلق قائم رہے ۔لیکن بھارت و افغان یکجہتی سےایسا ممکن نہ رہا۔
اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ جو میدان پاکستان نے پشتو زبان، ادب اور تاریخ کے سلسلہ میں افغانستان کے لئے کھلاچھوڑا ہے، اسے ازسرنو ہاتھ میں لے کر پاکستان کے بعض بھٹکے ہوئے پختونوں کو اور خود افغانوں کواس حوالے سے ذہنی طور پر مطمئن اورقانع کریں، وگرنہ خود پاکستان کے پختونوں کا ایک طبقہ ہمیشہ کے لئے اِس غلط بیانیے کے زیر اثر رہے گا اور پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا رہے گا۔
نوٹ : افغانستان دراصل اقلیتوں کا ملک ہے ، جس میں بسنے والے نسلی اور قومی گروہوں کی اکثریت پڑوسی ملکوں میں قیام پذیر ہیں ۔ تاجکوں کی اکثریت تاجکستان اور ازبکستان میں رہتی ہے ۔ ازبکوں کی اکثریت ازبکستان میں بستے ہیں، ہراتیوں کی اکثریت ایران میں ہوتی ہے، کرغیزوں کی اکثریت کر غیز ستان میں میں واقع ہیں ، بلوچوں کی اکثریت پاکستان میں ہیں۔ جہاں تک پختونوں کا تعلق ہیں تو انکا دو تہائی حصہ پاکستان میں ہیں ۔ کسی پڑوسی ملک نے افغانستان کے ہم نژاد گروہوں پر دعوہ نہیں کیا ہے ۔
یہ صرف افغانستان ہے جس نے پاکستان کے علاقے پر دعویً کیا ہوا ہے اور جس کی بنیاد یہ ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے باقی ماندہ افغانستان کا دارالخلافہ اور حکمرانوں کی قبائلی تسلسل موجودہ افغانستان میں رہی ہے، ورنہ حق پاکستان کی طرف ہے کہ وہ دعوی کرے۔