عمران خان یہ موقع بھی ضائع کر دیں گے؟
Reading Time: 4 minutesپچھلے دس سال سے ملک میں سیاسی استحکام ناپید ہے۔
اس سے پہلے پی پی کے دور میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نواز شریف اور افتخار چوہدری کے ذریعے انویسٹرز کو ایک ہی پیغام دیتی رہی کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی، بین الاقوامی معاہدے برباد کردئیے گئے اور ملک کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی بالواسطہ کوشش ہوتی رہی۔
نواز شریف کو الیکشن جیتنے کے فوری بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایک اور نمائندے عمران خان سے نمٹنا تھا، جو 35 پنکچر نامی جھوٹا الزام لئے سڑکوں پر انڈیل دئیے گئے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے دھرنے کے ذریعے پرویز مشرف کو ملک سے نکالنے کے ساتھ ساتھ طارق فاطمی اور پرویز رشید کو ہدف بنا کر نواز شریف سے خارجہ پالیسی کو چھین لیا اور نواز شریف جو وزیر خارجہ اس لئے مقرر نہیں کر رہے تھے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنے نمائندے کو لگانے کا مطالبہ کر رہی تھی (جیسا کہ صاحبزارہ یعقوب بے نظیر کو، شاہ محمود پہلے پی پی کو اور بعد میں پی ٹی آئی کو جہیز میں دیا گیا) کو بیک فٹ پر لے گئی۔
سول حکومت پر اوسط سے کم درجے کی ذہانت کے حامل ستاروں والے بابو کو چھوڑ دیا گیا۔
اس دوران چائنا کے سربراہ مملکت کا دور سبوتاژ کیا گیا اور مسلسل سڑکوں کو گرم رکھا گیا اور انویسٹرز کو پیغام دیا گیا کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی۔
پری پول رگنگ اور الیکشن کے بعد دباؤ کے ذریعے عمران حکومت بنانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی نیت یہ تھی کہ دس سال سے جو تماشہ لگا ہے کہ پاکستان کی سیاسی حکومتیں غیر مستحکم ہوتی ہیں کو ختم کیا جائے، اسی لئے عمران حکومت دس سال کے لئے آئی ہے کا نعرہ لگایا گیا۔
چنیدہ صحافیوں کو اپنے دفاتر میں ایسے وقت بلا کر جب ابھی وزیراعظم سو رہے ہوتے تھے بتایا گیا کہ مثبت رپورٹنگ کریں، نواز شریف اور زرداری کی مبینہ کرپشن کے فیبریکیٹڈ ثبوت دکھائے گئے اور ایک ہی پیغام دیا گیا کہ دس سال اور اور صرف دس سال۔
جن صحافیوں اور اوپینئین میکرز میں ذرا بھی عقل تھی اور انہوں نے آلہ کار بننے سے انکار کیا ان کو چینلز سے نکلوایا گیا۔
ہر چینل کا ٹاک شو کانٹینٹ پہلے بابو چیک کرتے تھے۔
جیو کے مالک کو ہوائی مقدمے میں جیل رکھا گیا اور یوں اپنی طرف سے استحکام کا جعلی تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی۔
اراکین اسمبلی کو بلیک میل حتیٰ کہ حراست میں رکھ کر عمران خان کو اسمبلی کی قانون سازی میں استعمال کیا گیا۔
صادق سنجرانی کے عدم اعتماد کے موقع پر چودہ لوگ خریدے گئے اور مقصد ایک ہی تھا کہ انویسٹرز کو بتایا جائے کہ عمران اب نہیں جائے گا۔
اس دوران ملٹری اسٹیبلشمنٹ مستقل عمران خان کی مدد کے لئے دنیا میں کشکول اٹھا کر پھرتی رہی اور ان کو بھی ایک ہی بات بتاتی رہی کہ آل ادر پولیٹیکل فورسز آر نو مور، آنلی عمران خان ول سروائیو۔
انویسٹر سیانا ہوتا ہے وہ جانتا تھا کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی کیونکہ نہ کوئی وژن تھا اور نہ شعور۔
نواز شریف نے اس دوران ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی خلفشار سے "گو آہیڈ” لے کر دو لوگوں کو نشانہ بنایا۔
ادھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے "امپلسو” رویے سے تنگ آ رہی تھی اور دوسری طرف انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ پنجاب کی اربن مڈل کلاس جس کی نمائندگی نواز شریف کر رہا ہے ان کے خلاف ہو رہی ہے اور گورنینس میں شدید مسائل ہیں۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو خصوصاً پنجاب میں اپنی گورنینس بہتر کرنے کا کہتی رہی کیونکہ پنجاب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا حلقہ تھا۔
عمران خان مان جاتے تھے لیکن ڈومیسٹک وائلنس کے ڈر سے یو ٹرن لے لیتے تھے۔
ادھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے جب مولانا فضل الرحمان کو واپس بھجوانا تھا تو ان سے وعدہ کیا کہ ہم نیوٹرل ہوجائیں گے۔
سندھ سے بلاول اور زرداری اس دروان "گُڈ کنڈکٹ”کا مظاہرہ کرتے رہے اور ملاقاتیں اور شکایتیں کرتے رہے اور ان کو بھی بالاخر یہ یقین دہانی کروا دی گئی کہ فلاں تاریخ سے آپ جانیں اور عمران جانے۔
دوسری طرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ڈریم بوائے شہباز جیل جانے سے بچا لیا گیا اور اس احسان کے بدلے وہ بھائی جان سے عارضی سیز فائر لے آیا اور بالاخر وہ سعد دن آگیا جب سب کو بتا دیا گیا کہ عمران خان اب سے ڈکٹیٹر نہیں سیاستدان بن گیا ہے۔
عمران خان نے عدم اعتماد آنے کے بعد جس گھٹیا کنڈکٹ کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ ہے۔
تخت سے انتہائی ذلت کے عالم میں اترنے کے بعد سے اب تک عمران کی ایک ہی اپیل تھی کہ نیوٹرل نہ رہیں میری مدد کریں۔
صدارتی عشرت کدے میں اسٹیبلشمنٹ کے باس سے ملاقات کے بعد عمران کو حتمی جواب مل گیا کہ آپ سیاسی میدان میں مقابلہ کریں۔
ایک بار پھر ملک ایک دوراہے پر ہے۔
جب عمران خان سلیکٹ ہوا تو بلاول اور شہباز نے اس سے کہا کہ ہم اپ کو سپورٹ کرنے کو تیار ہیں لیکن عمران سٹک اینڈ بوٹ کے وزن کو اپنے وزن میں شامل کرکے اپنا وزن تول رہا تھا اور یوں یہ سنہری موقع گذر گیا۔
عمران خان کے علاوہ سب سیاسی اور غیر سیاسی جانور جانتے ہیں کہ اصل مسئلہ اگلے الیکشنز کی کریڈیبلٹی اور آنے والی حکومت کا پانچ سال چلنا ہے۔
اسی لیے عمران خان کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ، عدالتی اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاستدان بشمول دندان ساز کے یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ جائیں اور گفتگو کریں۔
مجھے شبہ ہے کہ عمران خان اس موقع کو بھی ضائع کر دیں گے کیونکہ وہ سیاسی شعور سے عاری ہیں اور وہ ملک سے زیادہ اہمیت اپنی ذات کو دینے کی تاریخ رکھتے ہیں۔