چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا فوج کا نام لیے بغیر ریمارکس
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سُپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے پر کہا ہے کہ اس سے پورا معاشرہ ٹراما کا شکار ہے۔
جمعرات کو فوجی عدالتوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کی گفتگو ریکارڈ کی گئی ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کی گئی، یہ عوام کی آزادی کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس نے فوج کا نام لیے بغیر کہا کہ اُن سے پوچھیں کتنے افراد کو گرفتار کیا ہے اور اُنہیں کہاں رکھا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ خواتین کو کہاں رکھا جا رہا ہے؟ بچوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ تمام گرفتار افراد کے درست اعدادوشمار پیش کیے جائیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں، کوئی حکم امتناع جاری نہیں کر رہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ پہلے آپ کو سننا چاہتے ہیں، اس کیس کو سننے والا بینچ اب یہی رہے گا، اگر بنچ کا ایک بھی ممبر نہ ہوا تو سماعت نہیں ہو سکے گی۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تمام فریقین اپنے دلائل تحریری طور پر جمع کرا دیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جاننا چاہتے ہیں مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجنے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ حوالگی تو ان کے اپنے اہلکاروں کی ہوسکتی ہے عام شہریوں کی نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مقدمات ملٹری کورٹس بھیجنے کا فیصلہ تو عدالت کرے گی، ججز کو تو وجوہات کے ساتھ فیصلہ دینا ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ ان فیصلوں کو چیلنج نہیں کرے گا؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا انسداد دہشتگردی کی عدالتیں آرمی ایکٹ میں آنے والوں کا ٹرائل کر سکتی ہیں؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مقدمات میں تو وہ پیش ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ان مقدمات کے دوران عدالتوں میں بھی نہ ملزمان کو پیش کیا گیا اور نہ ہی اُن کے وکلا کو موقع دیا گیا۔
جسٹس یحیی آفریدی نے پوچھا کہ جن افراد کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں بھیجا گیا کیا انھوں نے اس اقدام کو چیلنج کیا؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان افراد کا میں وکیل نہیں مجھے معلوم نہیں۔ مقدمات دائر ہوں بھی تو کس نے سننا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ ان افراد تک کسی کی رسائی ہی نہیں،
لطیف کھوسہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات نہیں مانے جا رہے تو ان عدالتوں کا حکم کو مانے گا؟
جسٹس یحیی آفریدی نے ہدایت کی کہ پہلے آرمی ایکٹ کی سیکشن ٹو ون ڈی کو پڑھیں، آرمی ایکٹ کی کس شق کے تحت ٹرائل کیا جارہا ہے یہ واضح نہیں، درخواست گزاروں نے بھی جو چیزیں لگائیں وہ بھی نامکمل ہیں۔
وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ وہ ملک اور 25 کروڑ عوام کی فکر میں آئے ہیں۔