اہم خبریں متفرق خبریں

عمران خان کو اڈیالہ کے بجائے اٹک جیل میں رکھنے کا فیصلہ کس نے کیا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

اگست 11, 2023 2 min

عمران خان کو اڈیالہ کے بجائے اٹک جیل میں رکھنے کا فیصلہ کس نے کیا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

Reading Time: 2 minutes

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا ہے کہ سزا ہونے پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی بجائے اٹک جیل کیوں منتقل کیا گیا؟

جمعے کو سابق وزیراعظم عمران خان کی اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی کی دائر درخواست کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب راؤ شوکت اور سابق وزیراعظم کے وکیل شیر افضل مروت عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب راؤ شوکت سے سوال کیا کہ عمران خان کو اڈیالہ کے بجائے اٹک جیل میں رکھنے کا فیصلہ کس کا تھا؟

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کے سامنے پنجاب حکومت کی جانب سے جیل منتقلی کا لیٹر پیش کیا۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالتی آرڈرز کے باوجود ان کو چیئرمین پی ٹی آئی سے نہیں ملنے نہیں دیا گیا۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ کیا صرف وکالت نامے دستخط کرانے کے لیے وکیل اپنے کلائنٹ سے جیل میں مل سکتا ہے۔

وکیل پنجاب نے کہا کہ ’سات اگست کو ہم نے ملنے کی اجازت دی آٹھ اور نو اگست کو یہ دیر سے پہنچے۔ اگر سپرنٹنڈنٹ اجازت دے تو روزانہ بھی جیل میں ملاقات ہو سکتی ہے۔‘

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقاتوں پر بھی تذلیل کی جا رہی ہے، وہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’چیئرمین پی ٹی آئی ایک بڑی پارٹی کے لیڈر، سابق وزیر اعظم ہیں اور ساتھ ہی سزا یافتہ ہیں۔‘

پنجاب حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’اگر عدالت ہفتے میں ایک یا دو دن رکھ دے اور وقت مقرر کر دے تو ٹھیک ہے۔‘

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ’گزشتہ روز انہوں نے بشری بی بی کی ملاقات کرائی پھر مجھے کہا ایک دن میں ایک ملاقات ہو سکتی ہے۔‘

جیل میں عمران خان کو دی گئی سہولتوں پر پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے ہم نے کھانے کے لیے الگ سے خانساماں اور الگ برتن رکھے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ کسی نے ہفتے میں اگر دو تین بار ملنا ہو تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے