جب ’مارشل لا کی توہین‘ پر ہائیکورٹ کے دو ججز کو فوجی کمانڈر نے نوٹس بھیجا
Reading Time: 2 minutesجسٹس اطہر من اللہ نے ججز تقرر کیس میں اپنی ایک حالیہ عدالتی رائے میں کہا ہے کہ آئین کی تخلیق ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے سنگین غداری یعنی فوجی طالع آزماؤں کی جانب سے آئین توڑنے کی بار بار توثیق کی اور غاصبوں کو دستور کی شقوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی اجازت دی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نشاندہی کی کہ جب دوسرے مارشل لا کے دوران ملتان کے ایریا کمانڈر نے لاہور ہائی کورٹ کے دو ججوں کو نوٹس جاری کیا تھا تو اس وقت بھی عدلیہ نے غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا تھا کہ اور ان کے خلاف کارروائی نہ کی۔
ان کے مطابق مارشل لا کی توہین پر ججوں کو نوٹس کے خلاف چند ججز نے اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے جرات کا مظاہرہ کی اور ضمیر کے مطابق فیصلے کیے گئے۔
مگر اُن کے بھائی ججوں کی طرف سے ان پر مقدمہ صرف طاقتور قوتوں کے خوف کی وجہ سے چلایا جاتا۔
جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ کے مطابق ایوب خان کے دور میں ججز کی تعیناتیوں کے امیدواروں کےانٹریوز کیے جاتے تھے۔
سپریم کورٹ نے دو عدالتی فیصلوں میں پارلیمان کے اختیارات کو غیر موثر کیا، سپریم کورٹ کے ان دو فیصلوں سے تمام تر اختیارات چیف جسٹس کو مل گئے۔
جسٹس من اللہ کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحت چیف جسٹس کو لامتناہی اختیارات مل گئے، اس وقت ججز کی تقرری جج ہی کرتے تھے۔
نوٹ میں لکھا گیا کہ آئینی ترمیم کے بعد ججز کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا، کئی مرتبہ مارشل لا کی توثیق اور سنگین غداری کو قانونی جواز دیا گیا۔
انہوں نے لکھا کہ ماضی میں پارلیمنٹ کی توہین کرنے والوں کو استثنیٰ دیا گیا، اور سپریم کورٹ نے ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق سپریم کورٹ نے تین منتخب وزرائے اعظم کو نااہل کیا، یہ تمام اقدامات چند غیر منتخب ججز نے سرانجام دیے، جبکہ کسی فوجی آمر یا اس کے سہولت کار کو سنگین غداری کے مقدمے کے تحت قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔
اُن کے مطابق یہ سب کچھ گزشتہ سات دہائیوں میں اس وقت ہوا جب جج ہی ججز کی تقرری کرتے تھے، جب جج ہی ججز کو تعینات کرتے تھے اس وقت بھی کہا جاتا تھا عدلیہ آزاد نہیں،جوڈیشل کمیشن ارکان کی بھاری اکثریت حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ہے۔
ججز کی تعیناتی کے لیے معیار اور شفافیت نہ ہونے کے سبب میرٹ پر تعیناتیاں نہ ہو سکیں۔
جسٹس اطہر کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا ججز تقرر کرنا ایک انتظامی عمل ہے، جوڈیشل کمیشن کو چاہیے ججز کی تقرری پسند ناپسند پر نہ کرے،عدلیہ کی آزادی کے لیے اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں شفاف ہونی چاہئیں، اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتیاں میرٹ پر ہونی چاہیے۔
انہوں نے لکھا کہ احتساب کے بغیر صوابدیدی اختیار سے عدلیہ کی آزادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری نہ صرف میرٹ پر ہونی چاہیے بلکہ اس کی ٹھوس وجوہات بھی ہونی چاہییں۔