واٹرلوو، بلجیئم
کی سیر!
صادق کاکڑ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرار مدنی صاحب میرے اسلام آباد کے زمانے کے دوست ہیں اور تب سے ہم ایک دوسرے سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں، وہ بھی اکثر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ میں بیلجیئم آیا تو کئی بار رابطہ ہونے پر ان کو بیلجیئم آنے کی دعوت دی۔ چند دن قبل ان کا میسج آیا کہ میں ایک آفیشل میٹنگ شرکت کی غرض سے 4 دن کے لئے برسلز آ رہا ہوں۔ میں نے ویلکم کہا۔
وہ 14 مئی کو برسلز پہنچے، ایک دو دن مصروف رہیں تو بس مختصر سی ملاقات ہو جاتی تھی جس میں ہم دونوں برسلز کے سینٹر میں واک کرتے یا پھر میں کوئی نئی جگہ دکھا دیتا۔ ہفتہ کا دن ان کے پروگرام میں ذرا فری تھا تو میں نے صبح صبح رابطہ کیا۔ طے یہ ہوا کہ ناشتہ کے بعد ملاقات کرتے ہیں اور پھر ملاقات میں ہی اگلا پروگرام بنا لیں گے۔ اسرار بھائی نے خاص طور پر ڈاکٹر طاہر رشید صاحب کا ذکر مجھ سے 2 دن قبل کیا تھا کہ کوئٹہ سے تعلق ہے تو ان سے بھی ملاقات ہو جائےگی۔ ڈاکٹر طاہر رشید بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے سربراہ ہیں اور وہ بھی اسی میٹنگ کے لئے تشریف لائے تھے۔
میں تقریبا بارہ بجے ان کے ملنے برسلز کے سینٹر پہنچا تو رابطہ کرنے پر قریب ہی ایک انڈین ریسٹورنٹ میں ہم اکھٹے ہوئے اور وہی پر ہم نے لنچ کر لیا۔ لنچ کے بعد ان دونوں کا اصرار تھا کہ آپ جا کر اپنی مصروفیات دیکھیں، ہم تھوڑا گھوم کر آرام کرنے ہوٹل چلے جائیں گے۔ میں نے صاف انکار کر دیا کہ اگر برسلز شہر گھومنے کا پلان ہے تو میں ساتھ ہی گھوم رہا ہوں لیکن اگر آپ لوگ باہر جانا چاہتے ہیں تو پھر میں بروج اور گینٹ کا راستہ سمجھا دیتا ہوں اور خود معذرت کر لوں گا اور پھر واپسی پر ملاقات ہوگی کیونکہ آج کل میرے دن تھوڑے زیادہ مصروف چل رہے ہیں۔
ہم ابھی فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ اسرار بھائی نے کہا کہ مجھے بیرسٹر ظفراللہ خان صاحب سے تائید کی ہے کہ بیلجئیم میں واٹرلوو لازمی جانا، جہاں نپولین بوناپارٹ کو شکست ہوئی تھی۔ میں نے گوگل پر چیک کیا تو واٹرلوو تک 30 منٹ کی ٹرین تھی۔ تب تک میں بھی اپنا فیصلہ بدل چکا تھا کہ گینٹ تو آپ لوگوں نے اکیلے جانا تھا لیکن اگر اتنی تاریخی جگہ کے وزٹ کے لئے جانے کا پلان ہے تو اب میں بھی ساتھ جاؤں گا۔ ویسے بھی تاریخی جگہیں دیکھنے کا مجھے جنون کی حد تک شوق ہے۔
ہم وہاں سے اٹھے، قریب ہی برسلز سینٹرل سٹیشن کی طرف روانہ ہوئے۔ موسم ہوادار اور معتدل تھا جسے یہاں کی رنگ برنگی مخلوق گرمائش پہنچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ برسلز میں پرائڈ ویک چل رہا ہے تو کافی رش تھا اور لوگوں نے عجیب و غریب کپڑے پہن رکھے تھے۔ ہم نے رش کے بیچ میں بچتے بچاتے سٹیشن پہنچ کر ٹکٹیں لیں۔ سوا 2 بجے کی ٹرین میں بیٹھ کر واٹرلوو روانہ ہوگئے۔ یہ شاید کوئی لوکل سائڈ تھی کہ ٹرین اس مختصر سفر میں بھی ہر ہر سٹیشن پر رکتی رہی۔ پونے 3 بجے ہم واٹرلوو کے سٹیشن اترے، ہلکی ہلکی خنک ہوا میں سورج کی تمازش کافی مزیدار لگ رہی تھی۔
سٹیشن انتہائی سادہ اور چھوٹا تھا کہ یہاں نہ شہر کی رونق تھی اور نہ کسی چیز کے لیے رہنمائی والے بورڈ۔ میں نے انکل گوگل کو زحمت دی تو وہ بھی بتانے سے انکاری ہو گیا کہ آپ لوگ کہاں جائیں۔ اس پوری ریسرچ میں ایک پہاڑی کے اوپر شیر کا مجسمہ نظر آیا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں battle of waterloo لڑی گئی تھی۔ لیکن وہ جگہ سٹیشن سے ساڑھے 5 کلومیٹر دور تھی۔ ایک دو مقامی بندوں سے مدد لی تو انہوں نے بتایا کہ یہ جگہ تو واٹرلوو شہر سے باہر ہے جہاں آپ لوگوں کو ٹیکسی میں جانا پڑےگا، ایک دوکاندار نے بتایا کہ اس علاقے تک بس بھی چلتی ہے۔ ہم نے اوبر منگوانے کا فیصلہ کیا لیکن ایک اور خدشہ نے گھیر لیا کہ اس طرف سے تو اوبر پر چلے جائیں، کہیں واپسی پر اس دیہات سے اوبر نہ ملی تو مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے فیصلہ کیا کہ اوبر کے بجائے بس سے چلتے ہیں تاکہ واپسی کا راستہ معلوم ہو۔
ہم سٹیشن سے 15 منٹ کی واک کر کے شہر کے بیچ پہنچے تو زندگی کے کچھ آثار دکھائی دئیے اور یہ واقعی ایک چھوٹا مگر زندگی سے بھرپور شہر تھا۔ طاہر صاحب کو لیدر کے خوبصورت بیگ نظر آئے تو اپنے بچوں کے لیے کچھ شاپنگ کی، اس کے بعد ہم بس میں سوار ہو کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ 15 منٹ بس میں سفر کرنے کے بعد ڈرائیور نے اتارا اور اشارے سے بتا دیا کہ آپ لوگوں نے سڑک کراس کر کے بائیں جانب جانا ہے۔
یہ قصبہ شہر سے کئی کلومیٹر دور انتہائی خوبصورت اور صاف شفاف تھا۔ ہم نے روڈ کراس کیا تو سامنے ہی وہ میدان تھا جہاں صدیوں پہلے کے کسی دن تلواریں اور بندوقیں آمنے سامنے تھیں، ہم نے کچھ تصویریں لیں اور ڈھلوان سے ہوتے ہوئے بلڈنگ کے اندر چلے گئے، ہمارے پاس وقت کم تھا، ہم میوزیم دیکھنے کے بجائے پہاڑی کے اوپر بنے شیر کے مجسمہ تک جانا چاہتے تھے جہاں سے اردگرد کا سارا علاقہ ہمارے سامنے ہوتا۔ کاونٹر پر بتایا گیا کہ وہاں تک کوئی الگ راستہ نہیں جاتا، میوزیم اور اوپر جانے کا ایک ہی ٹکٹ ہے۔ ہم نے 24 یورو فی کس ٹکٹ لیا اور میوزیم میں داخل ہو گئے۔
میوزیم کے پہلے ہی ہال میں جو چیز رکھی تھی وہ میرے لئے انتہائی دلچسپ تھی۔ جس کا ذکر دوران پی ایچ ڈی کافی پڑھا تھا۔ ہال کے کونے میں رکھی اصل گلوٹین (Guillotine) اپنے دور کی ایک مشہور اور خوفناک مشین تھی جو فرانسیسی انقلاب کے دور میں سزائے موت کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مجرم کو درد کے بغیر فوری طور پر سزا دی جائے۔ یہ ایک ایسی مشین تھی جس میں مجرم کا سر ایک طرف سے نکال کر اسے باندھا جاتا اور ایک بھاری دھار دار بلیڈ اوپر سے تیزی سے گرتا اور مجرم کا سر جسم سے جدا کر دیتا۔ اسے دورِ روشن خیالی (Enlightenment) میں اس بنیاد پر متعارف کرایا گیا تھا کہ یہ ایک "انسان دوست” اور "برابر انصاف” پر مبنی طریقہ ہے، کیونکہ یہ امیر و غریب، سب کے لیے ایک جیسا اور تیز ترین موت کا ذریعہ تھا۔ گلوٹین نے فرانس میں کئی برسوں تک عدالتی سزاؤں کا مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ مشین دورِ روشن خیالی میں ایک "مہذب” طریقہ سمجھا گیا، کیونکہ اس سے موت فوری ہوتی تھی اور انسانی تکلیف کم مانی جاتی تھی۔ فرانس میں یہ مشین انقلاب کے بعد کئی دہائیوں تک استعمال ہوتی رہی اور ہزاروں لوگوں، بشمول بادشاہ لوئی شانزدہم (Louis XVI) اور ملکہ میری انتوانیت (Marie Antoinette) کے سر اسی سے قلم کیے گئے۔ وقت کے ساتھ دنیا نے سزائے موت کے تصور پر سوال اٹھانے شروع کئے اور اسے بڑھتے انسانی حقوق کے شعور کے مخالف سمجھا گیا اور اسے ظالمانہ روایت قرار دے کر چیلنج کیا گیا۔ (میری پی ایچ ڈی کا تھیسس اسی موضوع پر ہے)۔
گلوٹین کا آخری استعمال 10 ستمبر 1977 کو ہوا، جب فرانس میں ایک مجرم حمید جندوبی کو سزائے موت دی گئی۔ بعد ازاں، 1981 میں فرانس نے سزائے موت کو مکمل طور پر ختم کر دیا، اور یوں گلوٹین کا خون آلود باب تاریخ کا حصہ بن گیا اور آج اس قسم کی مشینیں کسی میوزیم میں پڑی صرف اس دور کی یاد دلاتی ہیں۔
اسرار مدنی اور ڈاکٹر طاہر نے شاید غور سے بھی نہیں دیکھا لیکن میرے لئے گلوٹین اس میوزیم میں رکھی سب سے اہم چیز تھی۔ اس کے آگے میوزیم میں اس جنگ سے جڑی کئی بندوقیں اور تلواریں لٹکائی گئی تھی۔ اردگرد فوجیوں اور گھوڑوں کے مجسمے بھی کافی تعداد میں موجود تھے اور دیواروں پر اس جنگ کی تاریخ اور تصویریں جگہ جگہ لگائی گئی تھیں۔ میوزیم کی مزیدار چیز اس جنگ کی 4ڈی فلم تھی۔ ہم نے ہال کے باہر سے 4ڈی چشمے پہنے اور ہال میں داخل ہونے پر یوں لگا جیسے ہم 18ویں صدی میں پہنچ کر کسی سائڈ پر کھڑے ہو کر اس جنگ کو دیکھ رہے ہیں۔ فوجیوں کی آوازیں، کمانڈوز کے آرڈر، گھوڑے، تلواریں اور گولہ بارود، ہر چیز ہمارے سامنے جیسے ہو رہی ہو۔ جب جب کوئی بلاسٹ ہوتا تو ہمیں بھی اپنی جگہ ہلکی ہوئی محسوس ہو جاتی۔ اس خوفناک اور دلچسپ منظر کے بعد ہم میوزیم سے نکلے اور پہاڑی کے اوپر چڑھنے لگے۔ شیر تک پہنچنے کے لئے اس پہاڑی پر 230 سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ لیکن جب ہم اوپر پہنچے تو وہاں سے کھیتوں کی خوبصورتی اور مناظر انتہائی لاجواب اور متاثر کن تھے۔
یہ جنگ دراصل 18 جون 1815کو واٹرلوو کے مقام پر ھونے والی فرانس کے شہنشاہ نپولین کی آخری جنگ تھی۔ ولنگٹن اور بلوخر نے مل کر نپولین کے خلاف جنگ کی اوراس جنگ میں نپولین کو مکمل شکست ھوئی۔ 22 جون 1815 کو بیٹے کے حق میں بیٹھتے ھوئے نپولین نے سرنڈر کیا اور اسے سینٹ ہیلینا کے جزیرے میں قید کیا گیا،جہاں اس نے 1821ء میں وفات پائی۔