کراچی کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا کی بریانی
Reading Time: 3 minutesیعقوب عالم
ذائقہ صرف کھانے میں نہیں ہوتا بلکہ ہر کسی کی زبان کا بھی اپنا ذائقہ ہوتا ہے جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ۔
جیسے کسی کو لسی نمکین پسند ہے تو کسی کو میٹھی کسی کو ذائقہ بریانی کا اچھا لگتا ہے تو کسی کا پلاؤ کے بغیر گزارہ مشکل ۔
اسی طرح انسان کی عمر کے ساتھ ساتھ بھی ذائقہ بدلتا رہتا ہے کہ بچپن میں سبزیاں بری لگتی ہیں جوانی میں پسند آنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ بچپن میں کریلا کھانے سے الٹی محسوس ہوتی ہے جوانی میں قیمے کے ساتھ لذیذ لگنے لگتا ہے اور پھر ڈھلتی عمر میں بغیر قیمے کے بھی خوب سواد آتا ہے ۔
ذائقے کا ایک تعلق بھری جیب سے بھی ہے کہ قوت خرید کمزور ہو تو ٹھیلے کا بن کباب کھانے سے لگتا ہے آج عیاشی ہوگئی اور جب قوت خرید کے ایف سی کی بن جائے تو کہتے ہیں بن کباب بھی کوئی کھانے کی چیز ہے ؟
جن کو اللہ پاک نے نواز رکھا ہوتا ہے انہیں ذائقہ صرف مٹن میں محسوس ہوتا ہے جبکہ غریب جسے مٹن کی پہچان ہی نہیں ہوتی وہ کسی تقریب میں مٹن کھا بھی لے تو بیف سمجھ کے ہی کھا جاتا ہے کیونکہ اسے دونوں ذائقوں کی پہچان ہے اور نہ ہی گوشت کے ساخت کی جو بھری جیب والے پہچان کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بیف کی جگہ کھوتے اور مٹن کی جگہ کتے کھا گئے اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی ۔
خلاصہ یہ کہ ذائقے کا پیسوں سے بھی گھرا تعلق ہے ۔
اسی طرح ہر شہر اور برادری کے کھانے کا ذوق مختلف ہے پنجاب والے کھانے میں چاول سے زیادہ روٹی پسند کرتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ پنجاب میں صبح ناشتے میں لسی ، نان ، پایا ، چنا ، انڈہ چنا اور مرغ چنا پسند کیا جاتا ہے جبکہ کراچی والے دو پاپے یا دو پیس ڈبل روٹی کھا کر کام پر نکل پڑتے ہیں جبکہ دو عدد چھوٹی سی پوریاں کھانے کیلئے بھی اتوار کا انتظار ہوتا ہے کہ آفس جانا نہیں ہوگا بدہضمی ہوتی ہے تو ہو اسی وجہ سے کراچی والے روٹی سے زیادہ بریانی، فاسٹ فوڈ، باربی کیو رول اور پیزا پسند کرتے ہیں کہ ہلکی غذا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ کراچی میں چاول کئی اقسام کا بکثرت ملتا ہے مثلاً بیف بریانی، بیف پلاؤ، تکہ بریانی، مٹکا بریانی، زعفرانی بریانی، سنگاپوری رائس اور چائنیز رائس تو کراچی میں اب ٹھیلوں پر بھی مل جاتا ہے جبکہ پنجاب کا پلاؤ شہرت کے اعتبار سے سیور سے شروع ہوکر سیور پر ختم ۔
کے پی کے والے بھی پنجاب والوں کی طرح چاول سے زیادہ روٹی کھاتے ہیں اور مرچوں کا استعمال بھی بہت کم کرتے ہیں مگر جو پٹھان کراچی آکر مقیم ہوگئے ہیں انکی عادتیں بھی اب رفتہ رفتہ مہاجروں والی ہوگئی ہیں اب مرچیں کھانا بھی شروع کردی ہیں اور بریانی کی دکانیں تو اب مہاجر علاقوں سے زیادہ پشتون علاقوں میں کھل گئی ہیں اور صبح شام پٹھان ماشاءاللہ سے بریانیاں کھا رہے ہیں ۔
یہ جو کہا جاتا ہے پنجاب والوں کو بریانی بنانا نہیں آتی یہ بالکل غلط بات ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب والے بریانی لور ہی نہیں ہیں اور جو ہیں وہ یخنی پلاؤ پسند کرتے ہیں ساتھ میں ٹکیاں (شامی کباب) ۔
کراچی کے بہت سے کچن اس وقت ایسے ہیں جہاں بریانی کے بڑے کاریگروں کا تعلق پنجاب سے ہے اور اب تو اچھے پھٹان کاریگروں کی بھرمار ہوگئی ہے جبکہ خود میرے کچن کا سارا عملہ ملتانی ہے ۔
اس وقت صورتحال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ پشاور میں آئسکریم کی دکان پر لکھا ہوتا ہے:
” کراچی کی مشہور پشاوری آئسکریم ” اور بنوں والوں کو بنوں کا مشہور پلاؤ ترنول اسلام آباد آکر کھانا پڑتا ہے.
پنجاب کے کاریگر جب پنجاب میں کراچی اسٹائل کی بریانی بناتے ہیں تو پہلے دن ہی کھ دیا جاتا ہے استاد کلر کم لگانا ۔ اگلے دن کہتے ہیں استاد مصالحہ کم رکھنا ۔ پھر اگلے دن کہتے ہیں استاد بریانی تھوڑی نرم اتارنا چاول کڑک نہ ہوں ۔ یخنی پلاؤ میں ہر دانہ تقریباً ایک جیسا پکتا ہے برابر مصالحہ لگا ہوا جبکہ بریانی یخنی میں نہیں بنتی جس کی وجہ سے بریانی کے چاول اوپر والے تھوڑے کڑک ہوتے ہیں جسے کچہ نہیں کہا جاسکتا دونوں کے طریقوں میں فرق ہے ۔
ایسے میں اچھے بھلے کاریگر کا وہ حال ہوجاتا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی ہی چال بھول گیا .