اہم خبریں متفرق خبریں

فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس، سماعت کا مکمل احوال کمرہ عدالت سے

ستمبر 28, 2023 10 min

فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس، سماعت کا مکمل احوال کمرہ عدالت سے

Reading Time: 10 minutes

سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کا نمبر پکارا گیا تو سب سے پہلے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالتی روسٹرم پر آئے۔

بینچ کے سربراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تھے۔ اُن کے دائیں طرف جسٹس امین الدین خان اور بائیں جسٹس اطہر من اللہ بیٹھے تھے۔

اٹارنی جنرل نے بات شروع کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے درخواست گزاروں کی حاضری لگا دینی چاہیے۔ انہوں نے سٹاف سے پوچھا کہ کُل کتنی درخواستیں فیصلے پر نظرثانی کے لیے دائر کی گئیں۔ تعداد گن کر آٹھ نکلی۔
اس کے بعد انہوں نے کہا کہ پہلے ایک تصحیح کرتے چلیں کہ یہ کوئی سپیشل بینچ نہیں ہے، باقاعدہ مقدمات کی سماعت کرنے والا ہی بینچ ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظرثانی وہی بینچ سنتا ہے جس نے اصل مقدمے کی سماعت کی ہو مگر بینچ کے دوسرے جج ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ اور اب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو دیکھتے ہوئے اپیل میں تین رکنی بینچ ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عام طور پر نظرثانی درخواستیں فوری طور پر سماعت کے لیے مقرر کر دی جاتی ہیں مگر یہ چار برس تک نہ لگائی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قانونی تقاضہ ہے کہ نظرثانی فوری مقرر کی جائے اس لیے چیف جسٹس بننے کے بعد یہ کیا۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ وفاق کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انٹیلیجنس بیورو اور وزارت دفاع نے اپنی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ وجہ بتائیں گے کہ کیوں واپس لے رہے ہیں؟ پہلے تو کہہ رہے تھے کہ یہ غلطیوں سے بھرا ہوا فیصلہ ہے، اب اچانک یہ کیسے درست ہو گیا کہ سب پیچھے ہٹ رہے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اُس وقت کی وفاقی حکومت کی سوچ نظرثانی درخواستوں کے مطابق ہوگی اب مختلف ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت اور عدلیہ اور دیگر محکمے وہی رہتے ہیں، افراد اور عہدیدار بدلتے رہتے ہیں۔

اس کے بعد پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے وکیل ایس اے رحمان نے بتایا کہ وہ بھی اپنی نظرثانی درخواست واپس لے رہے ہیں تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے طویل ریمارکس دیے۔

انہوں نے کہا کہ اب ٹی وی اور یوٹیوب پر آ کر کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اُن کو سنا نہیں تھا۔ پہلے کچھ نہیں کہا گیا جیسے ہی یہ نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں طویل انٹرویو سامنے آ گئے۔

چیف جسٹس نے پیمرا کے وکیل سے کہا کہ وہ اُن کی بات نہیں کر رہے مگر عدالت کو شرمندہ نہ کریں، جو کچھ کہنا ہے لکھ کر دیں، زبانی تقاریر نہ کریں۔ اگر کوئی کچھ ریکارڈ پر لانا چاہتا ہے تو عدالت میں تحریری طور پر جمع کرائے، مناسب طریقہ کار یہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کچھ کہتا ہے تو یہاں لے آئے۔ ‘میں کسی کا نام نہیں لے رہا۔ ہر ادارے کو تباہ نہ کریں، یہ عوام کے ادارے ہیں۔’

چیف جسٹس کے مطابق کہا جاتا ہے کہ اُس وقت اُن کو سنا جاتا تو یہ ہو جاتا، وہ ہو جاتا۔

چیف جسٹس کے ان ریمارکس کے وقت پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم عدالت میں موجود تھے اور وہ اپنی نشست سے اُٹھ کر روسٹرم تک بھی گئے۔ جہاں وہ کافی دیر کھڑے رہے مگر عدالت کی جانب سے اُن کو نظرانداز کیا گیا۔

اس کے بعد تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ اُن کو پارٹی کی جانب سے عدالتی فیصلے پر نظرثانی درخواست واپس لینے کی ہدایات ملی ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگر وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو بول دیں۔

تحریک انصاف کے وکیل سے بار بار پوچھا گیا کہ کیا اُن کو یقین ہے کہ نظرثانی درخواست واپس لینے کی ہدایت دی گئی ہے؟

وکیل علی ظفر نے مسکراتے ہوئے اپنی بات دہرائی تو چیف جسٹس نے کہا کہ پھر بھی دیکھ لیں۔ کیا آپ کو تصدیق شدہ ہدایات دی گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ ‘آپ کی ساکھ ہے اس میں ہمیں کوئی شک نہیں، مگر پھر بھی تیسری بار آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ واقعی واپس لینا چاہتے ہیں۔’

انہوں نے وکیل علی ظفر سے مذاق میں کہا کہ تین بار پوچھنا شریعت کے بھی مطابق ہے۔

اس کے بعد اگلے درخواست گزار کا نمبر اورنام پکارا گیا تو سابق ڈکٹیٹر ضیا الحق کے بیٹے اعجاز الحق کی جانب سے وکیل پیش ہوئے۔

وکیل نے کہا کہ وہ اپنی درخواست واپس نہیں لے رہے۔ فیصلے میں اُن کے مؤکل کے بارے میں جو لکھا گیا اُس میں غلطی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا تو وکیل نے جواب دیا کہ فیصلے کے چوتھے پیراگراف میں لکھا گیا کہ اعجاز الحق نے فیض آباد دھرنے والوں کے لیے آڈیو میسج بھیجے جو درست نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جانب سے کی گئی نشاندہی عدالتی فیصلے کا نہیں آئی ایس آئی کی رپورٹ کا پیراگراف ہے۔ اس کے بعد عدالت نے اس پر رائے نہیں دی۔ اگر آئی ایس آئی کی رپورٹ کو درست نہیں مانتے تو اس کے خلاف اپنا بیان حلفی اور حقائق بتا دیں۔

وکیل نے کہا کہ یہ رپورٹ کبھی اس مقدمے کے دوران اعجاز الحق کو نہیں دی گئی تاکہ وہ اس پر اپنا جواب دیتے۔ میڈیا میں بھی اسی بنیاد پر مؤکل کا امیج خراب کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اُن کے مؤکل نے دھرنے کو سپورٹ نہیں کیا تو وہ بتا دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بیان حلفی دینے میں احتیاط کریں، پہلے حقائق دیکھ لیجیے۔
وکیل نے بتایا کہ اعجاز الحق نے کبھی دھرنے کی حمایت نہیں کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے بجائے آپ کے حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے بیان حلفی جمع کرانے کی ضرورت ہوگی۔

اگلے درخواست گزار کا نمبر پکارا گیا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے وکیل ملک قمر افضل پیش ہوئے۔
انہوں نے استدعا کی نظرثانی واپس لینے کی اجازت دی جائے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیوں، آپ کو فیصلے پر اعتراضات تھے، اب اُن کا بتائیں۔
وکیل نے کہا کہ اُن کو جو ہدایات ہیں اس کی روشنی میں اب بتانے کے لیے نہیں بلکہ واپس لینے کی استدعا کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اب کتنا جرمانہ عائد ہونا چاہیے عدالت کے وقت کو ضائع کرنے پر؟ ملک کو بھی ٹینشن میں ڈالا اور عدالتی وقت بھی ضائع کیا گیا۔ اور اب آ کر کہہ رہے ہیں کہ واپس لے لیتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ اُس وقت نظرثانی دائر کرنے کا فیصلہ تھا اور آج کا الیکشن کمیشن اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے درخواست واپس لے رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی فیصلے پر نظرثانی دائر کرتے وقت وکیل سے مشاورت کی جاتی ہے، بطور وکیل فیصلے میں جو غلطیاں آپ کو نظر آئیں جن کی بنیاد پر نظرثانی دائر کرنے کا مشور دیا وہ بتائیں کون سے نکات ہیں۔
وکیل قمر افضل نے جواب دیا کہ اب چونکہ الیکشن کمیشن کی ہدایات ہیں واپس لینے کی تو وہ اس پر دلائل نہیں دے سکتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر اس دوران تمام متعلقہ محکموں اور اداروں نے اپنے اندر جھانکا ہے اور خود احتسابی کی ہے تو یہ خوش آئند ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اُس وقت دوران سماعت الیکشن کمیشن کی جانب سے پارٹی فنڈ والے معاملے پر قانون کو کاسمیٹک کہا گیا تھا حالانکہ وہ انتہائی سنجیدہ بات ہے، کیا وہ مؤقف واپس لیا جا رہا ہے؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، اور اس طرح یہ لگ ہے کہ سب کچھ طے شدہ تھا، خود سے کچھ نہیں کیا گیا بلکہ آرکسٹریٹڈ تھا، اس کے پیچھے کوئی کنڈکٹر تھا۔ جس طرح میوزک کے آرکسٹرا میں ہوتا ہے۔ خود سے یہ محکمے یا ادارہ کچھ نہیں کرتے۔ اگر اب واپس لے رہے ہیں اور اُس وقت فیصلہ قبول نہیں تھا تو یا تو اُس وقت آرکسٹریٹڈ تھا، اب ہیں یا پھر ہمیشہ سے ہی ایسے رہے ہیں۔ (یعنی سب کسی کے کہنے پر کرتے ہیں۔)

وکیل قمر افضل نے کہا کہ فیصلے کو چار برس گزر گئے، اب یہ سمجھ بوجھ کے لحاظ سے ادارے زیادہ بہتر ہو گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات بھی سپریم کورٹ کے خلاف ہی جا رہی ہے کیونکہ چار برس تک یہاں نظرثانی کی درخواستیں مقرر کرنے میں تاخیر کی گئی۔ یہاں بھی خود احتسابی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ یہ سوال کیوں نہیں پوچھتے کہ چار برس تک ان نظرثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے کیوں مقرر نہ کیا گیا۔ یہ سپریم کورٹ پر سوال ہے جو ہونا چاہیے کیونکہ اب وکیل بالواسطہ انگلی اٹھا رہے ہیں کہ وقت گزر گیا، اور یہ کہ درخواستیں تاخیر سے مقرر کی گئیں۔

چیف جسٹس نے وکیل سے پوچھا کہ ان باتوں سے یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں مقدمات مقرر کرنے کے پیچھے بھی کوئی تھا۔ اب تو ایسا نہیں ہوگا کہ فلاں کیس لگے گا یا فلاں سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف سچ ہی ہر شے سے چھٹکارا دلا سکتا ہے اس لیے لکھیے یہ بات کہ فلاں جگہ سے یا کہاں سے حکم آیا تھا کہ نظرثانی دائر کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے پوری داستان دیکھی ہے۔ بارہ مئی سنہ 2007 کو 55 لوگ مارے گئے۔ اور پھر مٹی پاؤ کہہ کر آگے بڑھ گئے، اُن کے خون کا ذمہ دار کون ہے؟ خلیفہ وقت نے تو کہا تھا کہ فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر جائے تو اُن سے پوچھ ہوگی۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے احادیث اور تاریخ اسلام کے واقعات کے حوالے دیے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل قمر افضل نے کہا کہ اُن کی جانب سے تو ابھی صرف یہ درخواست عدالت کے سامنے ہے کہ نظرثانی دائر کرنے کی اجازت دی جائے نظرثانی دائر نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے اجازت ہے، اجازت ہے، اجازت ہے۔ (انگریزی میں تین بار الاؤڈ کہا تو عدالت میں ہنسی گونج اُٹھی)
آپ کو نظرثانی دائر کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اب آگے چلیں۔

وکیل قمر افضل نے ہنستے ہوئے کہا کہ انہوں نے ابھی نظرثانی دائر کرنے کی اجازت کی درخواست واپس لینے کی استدعا کی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نظرثانی درخواستیں کیوں بروقت سماعت کے لیے مقرر نہ کی گئیں، اس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر کچھ کہنا ہے تو لکھ کر دیں تاکہ ریکارڈ کا حصہ بنے۔ ہم بطور ادارہ اپنے احتساب کے لیے تیار ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ایک سچ بولنے سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نظرثانی درخواست واپس لینا کوئی حل تو نہیں، اتنا بہترین فیصلہ ہے اس کو پڑھیں اس پر عمل کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے دلچسپ یہ بات ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کو صرف ایک شخص نے قبول کیا۔ اُن کے علاوہ باقی سب اَپ سیٹ ہوئے۔ اس ایک شخص کا نام خادم رضوی تھا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک لیبک اس فیصلے سے مطمئن رہی۔ وہاں سے کوئی نظرثانی دائر نہ کی گئی۔ ‘غلطیاں سب سے ہوتی ہیں۔ بڑا پن اس کو تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی اس لیے سنی جاتی ہے کہ غلطی کا امکان ہوتا ہے۔

فیصلے کے پیراگراف سولہ کو دیکھیں تو عدالت نے لکھا کہ یہ مقدمہ پانچ ماہ تک دوبارہ سماعت کے لیے ہی مقرر نہ کیا گیا۔ یہ خود احتسابی ہے کہ جو غلط ہوا اس کی نشاندہی کی گئی۔
‘کیا عدالت میں بھی اس کے پیچھے کوئی تھا کہ کیس مقرر نہ ہو، کوئی کنڈکٹر تھا، ایسا کوئی تھا یا نہ تھا۔’

انہوں نے کہا کہ اس کے خلاف کسی نے کوئی کارروائی کی؟ حکم اوپر سے آیا تھا پاکستان میں یہی چلتا ہے۔ کورٹ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اعتراف جرم تو کر لیں اگر جرم ہوا ہے، سزا و جزا تو بعد کی باتیں ہیں۔
اگر نظرثانی دائر کرنے کا حکم ہوا تھا اور اب اپنی آزادانہ حیثیت میں واپس لے رہے ہیں تو بتائیں۔ یہ کہنے کی ہمت ہے یا نہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل قمر افضل نے اس پر جواب دیا: اگر میں اپنی ذاتی اور آزادانہ حیثیت میں یہ درخواست کرتا تو بہت کچھ اور کھل کر لکھ سکتا تھا مگر یہ ادارے کی طرف سے ہے اور وہاں سے ہدایات ہیں کہ واپس لینی ہے۔ اس وقت الیکشن کمیشن کا وکیل ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خادم رضوی کی طرح اعتراف کوئی کرے گا یا نہیں۔ اوپر والے سے تو نہیں ڈرتے۔ سچ بولنے کی کسی میں ہمت ہی نہیں، سب ٹی وی پر بولیں گے عدالت کے سامنے نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معاشرہ اس طرح آہستہ آہستہ تباہ ہو جائے گا۔ سنہ 2017 میں دھرنا کیسے چلا، بتائیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ یہ سب کھل کر بتا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی نوجوان نسل کو کیا سبق دے رہے ہیں۔ پاور آف دی موب (ہجوم کی طاقت ہے) آج بھی یہی کر رہے ہیں، سبق نہیں سیکھا۔ آج کے حوالے سے کسی معاملے پر بات نہیں کر سکتے کہ اپیل اسی عدالت میں آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ صاحب کدھر گئے جو پاکستان میں جمہوریت لانا چاہتے تھے۔ کینیڈا اب کیوں نہیں آتے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ فیصلے پر عمل کا تحریری طور پر بتائیں گے، آپ نے آپشن دیا تھا اس پر عمل کا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں ٹھہر جائیں، سپریم کورٹ فیصلے پر عمل کا آپشن نہیں دیتی، یہ فیصلہ ہے اور نافذ ہوتا ہے۔ عدالت نے زیرو آپشن دیا تھا۔

وکیل نے بتایا کہ وہ کاسمیٹک قانون والی بات پر آپشن کا کہہ رہے تھے تو وہ واپس لی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن پارٹی فنڈ کے حوالے سے بتائے اس پر کیا ایکشن لیا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا اس فیصلے کے بعد کوئی معاہدہ کیا گیا؟ اور کیا وہ معاہد برقرار ہے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ معاہدہ کیا گیا تھا مگر وہ برقرار نہ رکھا جا سکا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر ریاست یا حکومت نے معاہدہ کیا تھا تو وہ برقرار کیوں نہ رکھا گیا؟
انہوں نے کہا کہ بارہ مئی 2017 وہ دن تھا جب اس ملک میں تشدد کے ذریعے سیاسی مقاصد کے حصول کی راہ ہموار کی گئی۔ اس پر کیا کارروئی کی گئی؟َ
چیف جسٹس نے دھرنا کے دوران ٹی وی چینلز کی جانب سے اشتعال پھیلانے کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ پیمرا نے کیا کارروائی کی؟ کس کو کتنا جرمانہ کیا؟ کیا تادیبی کارروائی کی گئی؟ اس کی تفصیل کہاں ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ بارہ مئی کے دن پاکستان کی سیاست میں ایک نئی چیز کنٹینرز متعارف کرائے گئے۔ انہوں نے کراچی میں وکلا تحریک کے دوران راستے بند کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے وزیر پورٹس اینڈ شپنگ تھے۔
چیف جسٹس نے مجرموں کو سزا دینے کے حوالے سے عالمی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کو اس طرح دفن نہیں کیا جاتا، زندہ قومیں دنیا بھر سے اپنے مجرموں کو 80 برس کی عمر میں بھی ملک واپس لا کر ٹرائل کرتی ہیں۔
چیف جسٹس نے لاکربی بمنگ کا حوالہ دیا جب مسافر طیارے کو تباہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران جب سیاسی جماعتوں کے اثاثوں اور اکاؤنٹس اور ان کو فنڈنگ کا پوچھا گیا تو وزارت دفاع نے جواب دیا تھا کہ یہ اُن کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اُن کو مفروضہ ہے کہ اگر اس کیس کے فیصلے پر عمل کیا جاتا تو شاید جڑانوالہ کا واقعہ نہ ہوتا۔ وہ لوگ بھی پاکستان کے برابر کے شہری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ریاست کے اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں ان کو شرمندہ نہیں کر رہے۔ احتساب کے بغیر مستقبل روشن نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ایسا کوئی تاثر تو نہیں کہ چونکہ نظرثانی درخواستیں زیرسماعت ہیں تو فیصلے پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس فیصلے اور ان باتوں نیشنل کھتارسس کی طرح لے لیں۔ کیونکہ یہاں جنوبی افریقہ کی طرح کوئی ٹرتھ اینڈ ری کنسلییشن کمیشن نہیں بن سکا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ نظرثانی درخواستیں دائر کر کے عدالت نہ آ سکنے والوں کو ایک اور موقع دیا جا رہا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو تحریری طور پر بتا سکیں۔
اٹارنی جنرل اور فریقوں کے وکلا کو تحریری معروضات جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت یکم نومبر تک ملتوی کی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمات کی براہ راست نشریات کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے کمیٹی کام کر رہی ہے۔ پہلے کی نشریات پر فیڈ بیک یا ردعمل کو بھی دیکھنا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پہلے مقدمے کی براہ راست نشریات کو دیکھنے والوں کی تعداد کرکٹ میچ دیکھنے والوں سے بھی بڑھ گئی تھی۔
چیف جسٹس نے ہسنتے ہوئے کہا کہ اشتہارات کی مد میں آنے والی رقم سے سپریم کورٹ کو حصہ تو نہیں دے رہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے