بریگیڈیئر اختر سبحان کی گرفتاری تسلیم کیے جانے کے بعد کیا ہوا؟
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی وزارت دفاع نے لاہور ہائیکورٹ کو حبسِ بے جا کی ایک درخواست کے جواب میں بتایا ہے کہ بریگیڈیئر اختر سبحان فوج کی تحویل میں ہیں اور اُن سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
عدالت کے سنگل بینچ نے درخواست غیرمؤثر قرار دے کر خارج کی جس کے خلاف اب انٹراکورٹ اپیل دائر کی گئی ہے۔
یہ درخواست بریگیڈیئر اختر سبحان کی اہلیہ عمیرہ سلیم نے دائر کی۔
انٹرا کورٹ اپیل کے مطابق تاحال زیرحراست افسر کو چارج شیٹ نہیں دی گئی جبکہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 51 میں لکھا گیا ہے کہ اگر کسی افسر یا اہلکار کو بغیر چارج شیٹ کے 24 گھنٹے حراست میں رکھا جائے تو اُس کی سزا دو برس ہے۔
درخواست میں وفاقِ پاکستان کو بذریعہ وزارت دفاع فریق بنایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ جی ایچ کیو راولپنڈی کے ایڈجوٹنٹ جنرل اور ملٹری پولیس راولپنڈی کے کمانڈنگ افسر کو بھی درخواست میں فریق کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
قبل ازیں وزرات دفاع نے عدالت کو بتایا تھا کہ درخواست گزار کے ہاتھ صاف نہیں اور انہوں نے عدالت کے سامنے مکمل سچ نہیں رکھا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ بریگیڈیئر اختر سبحان فوج میں ملازمت کرتے ہیں اس لیے اُن کا مقدمہ فوجی قانون کے تحت آتا ہے۔
وزارت دفاع نے لاہور ہائیکورٹ کو بتایا کہ یہ درخواست آرٹیکل 199 کی شق تین کے تحت ناقابلِ سماعت ہے اس لیے خارج کی جائے۔
بریگیڈیئر اختر سبحان فوج کی حراست میں ہیں اور یہ تسلیم کیا جا چکا ہے اس لیے حبسِ بے جا کا مقدمہ نہیں بنتا۔
اس عدالت کا دائرہ اختیارِ سماعت نہیں کیونکہ فوجی ٹرائل ہو رہا ہے۔
بریگیڈیئر اختر سبحان کی پوسٹنگ کوئٹہ میں تھی اور وہ اپنے فرائض بھی وہیں انجام دے رہے تھے۔
بریگیڈیئر اختر سبحان مبینہ طور پر سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث تھے جو کوئٹہ میں وقوع پذیر ہوئے۔
بریگیڈیئر اختر سبحان کے کمانڈنگ افسر بھی کوئٹہ میں ہیں اور اُن کو حراست میں لیے جانے کا مقام بھی کوئٹہ ہے اس لیے لاہور ہائی کورٹ اس مقدمے کو نہیں سُن سکتی۔ اگر درخواست دائر کی جانی تھی تو اُس کا متعلقہ قانونی فورم بلوچستان ہائیکورٹ کوئٹہ ہے۔
قبل ازیں بریگیڈیئر اختر سبحان کی اہلیہ کے وکیل کرنل ر انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا تھا کہ حراست غیرقانونی ہے اور تاحال چارج شیٹ نہیں کیا گیا اس حبسِ بے جا کا مقدمہ بنتا ہے۔
درخواست گزار کی ملاقات اپنے شوہر سے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کے بعد کرائی گئی جبکہ اُن کو جون سے حراست میں لیا گیا۔
ملاقات راولپنڈی میں کرائی گئی اس لیے درخواست کوئٹہ کے بجائے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی۔
سنگل بینچ کی جانب سے حبسِ بے جا کی درخواست خارج کرنے پر انٹراکورٹ اپیل دائر کی گئی ہے جس کی پیروی کرنل ر انعام الرحیم ایڈووکیٹ کریں گے۔