اہم خبریں متفرق خبریں

’ازالہ ممکن نہیں‘، 30 برس قید کے بعد مجرم کو سزائے موت

نومبر 10, 2023 2 min

’ازالہ ممکن نہیں‘، 30 برس قید کے بعد مجرم کو سزائے موت

Reading Time: 2 minutes

امریکی ریاست ٹیکساس میں قتل کے جرم میں قید ایک شخص کو 30 برس بعد سزائے موت دے دی گئی ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 53 سالہ برینٹ بریور نے 19 سال کی عمر میں ڈکیتی کے دوران قتل کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔

برینٹ بریور نے عدالتی فیصلے کے بعد 30 سال سے زیادہ کا عرصہ سزائے موت دیے جانے کے انتظار میں جیل میں گزارا۔

جیل حکام نے بتایا کہ 53 سالہ برینٹ بریور کو مقامی وقت کے مطابق شام ساڑھے چھ بجے ہنٹس وِل کے قصبے میں واقع ٹیکساس سٹیٹ پینٹینٹری میں مہلک انجکشن کے ذریعے موت کی نیند سلا دیا گیا۔

بریور کو 1991 میں 66 سالہ رابرٹ لامینیک کو ایک ڈکیتی کے دوران قتل کرنے کے جرم میں گزشتہ برس سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اس ڈکیتی کے دوران انہوں نے 140 ڈالر لوٹ لیے تھے۔

مقتول لامینیک نے سزائے موت پانے والے برینٹ بریور اور اس کی گرل فرینڈ کو اپنی گاڑی میں سوار کیا تھا۔

سزائے موت پانے والے برینٹ بریور کی گرل فرینڈ کرسٹی لین نیسٹروم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

برینٹ بریور نے رواں ہفتے ٹیکساس بورڈ آف پارڈنز اینڈ پیرولز سے سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کی اپیل کی تھی جس کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے ٹیکساس کورٹ آف کریمنل اپیلز میں دائر کی گئی ایک تحریک بھی مسترد کر دی گئی۔

جیل حکام کی جانب سے جاری کیے گئے اپنے آخری بیان میں بریور نے کہا کہ ’میں متاثرہ شخص کے اہل خانہ کو بتانا چاہوں گا کہ میں نے جو توڑا ہے اسے ٹھیک کرنے کے لیے میں کبھی بھی الفاظ نہیں جوڑ سکتا۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ یہ جان لیں کہ آج یہ 53 سالہ شخص 1990 کا وہ 19 سالہ لاپرواہ بچہ نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو سکون ملے گا۔ آپ کا شکریہ، وارڈن۔‘

بریور کے وکلا نے اپیل کورٹ سے اس بنیاد پر پھانسی کو روکنے کے لیے کہا تھا کہ اُس ماہر نفسیات رچرڈ کونز کی ساکھ ختم ہو چکی ہے جس نے سزائےموت سنائے جانے کے اس مقدمے میں گواہی دی تھی۔

حتمی اپیل مسترد ہونے کے بعد دفاع کے وکیل شان نولان نے کہا کہ ’جس برینٹ کو ٹیکساس پھانسی دینا چاہتا تھا وہ بہت پہلے ختم ہو چکا ہے۔‘

وکیل نے سزائے موت پر عمل درآمد سے پہلے کہا کہ ’وہ آج رات جس برینٹ کو مار رہے ہیں وہ ایک مہربان، فیاض، پرامن اور سوچنے والا آدمی ہے جس نے اپنا زیادہ تر وقت توبہ کرنے اور مذہبی علوم میں صرف کیا ہے۔ اسے اپنے اس جرم پر بہت پچھتاوا ہے، جب وہ 19 سال کا تھا، اور اس نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ متاثرہ خاندان کو جو تکلیف پہنچی اس کا ازالہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں۔‘

برینٹ بریور کو 1991 میں سنائی جانے والی سزائے موت کا 2009 میں جائزہ لیا گیا اور ایک جیوری نے ماہر نفسیات رچڑڈ کونز کی ماہرانہ رائے کے بعد سزا کو برقرار رکھا۔

ماہر نفسیات رچرڈ کونز نے کبھی مجرم برینٹ بریور کا انٹرویو نہیں کیا تھا، تاہم رائے دی کہ اس کا ’کوئی ضمیر نہیں‘ ہے اور وہ مستقبل میں پرتشدد کارروائیوں کا ارتکاب کرے گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے