میرے خلاف مہم عدلیہ پر حملہ، جسٹس مظاہر نقوی نے نوٹس چیلنج کر دیا
Reading Time: 2 minutesجسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کیے شوکاز نوٹس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے انضباطی کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کی کاررروائی ختم کرنے کی استدعا کی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ظاہر کیے گئے اثاثے جج کے خلاف کارروائی کی بنیاد نہیں بن سکتے۔
شوکاز نوٹس کے خلاف دائر درخواست میں جسٹس نقوی نے استدعا کی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل سے آئندہ جاری کیے جانے والے نوٹسز یا کارروائی کو بھی غیر قانونی قرار دیا جائے۔
جسٹس نقوی نے کہا کہ ٹیکس حکام کی جانب سے اثاثوں پر کبھی کوئی نوٹس نہیں آیا۔ میرے خلاف شروع کی گئی مہم عدلیہ پر حملہ ہے۔
انہوں نے درخواست میں کہا ہے کہ کونسل نے میرے اعترضات طے کئے بغیر آئندہ کارروائی کا نوٹس بھیجا۔
جسٹس نقوی کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے 27اکتوبر کو پریس ریلیز جاری کر کے میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت ایڈووکیٹ مخدوم علی خان، خواجہ حارث،علی ظفر،لطیف کھوسہ اور سعد ممتاز ہاشمی کے زریعے درخواست دائر کی.
درخواست میں وفاق،صدر مملکت اور جوڈیشل کونسل کو فریق بنایا گیا ہے.
جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کاررروائی ختم کی جائے،سپریم جوڈیشل کونسل سے آئندہ کارروائی کیلئے موصول نوٹس بھی غیر قانونی قرار دیا جائے.
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں سپریم کورٹ عدلیہ کی آزادی کو بنیادی آئینی ڈھانچے کا جزو قرار دے چکا ہے،16فروری سے تضحیک آمیز مہم کا سامنا کر رہا ہوں،میرے خلاف میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے،میرے خلاف شکایت کنندگان عدلیہ پر حملہ آور ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس کیس میں یہ اصول طے کیا گیا جج کو شفاف ٹرائل کا حق ملنا چاہیے،جوڈیشل کونسل کا مجھے شوکاز نوٹس جاری کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے،شوکاز نوٹس بارے جاری کردہ پریس ریلیز میری رائے لیے بغیر جاری کی گئی، جوڈیشل کونسل کا پریس ریلیز جاری کرنے سے میرا میڈیا ٹرائل ہوا،میرے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو بدنیتی پر مشتمل قرار دیکر کالعدم قرار دیا جائے،جوڈیشل کونسل کا جاری کردہ شوکاز نوٹس خلاف قانون قرار دیا جائے.
واضح رہے آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت دائر کی گئی اس کو کھلی عدالت میں سماعت کیلئے مقرر یا نہ کرنے کا فیصلہ تین رکنی کمیٹی کرے گی.
پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت تین رکنی کمیٹی کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ہیں. کمیٹی کے دیگر دو ارکان میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں.
جسٹس مظاہر نقوی نے شوکاز نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کونسل کے تین ارکان چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم افغان پر اعتراض اٹھا رکھا ہے.