لاپتہ بلوچ طلبہ کیس، وزیراعظم کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم
Reading Time: 3 minutesبلوچ طلبا کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نگران وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور سیکریٹری داخلہ، وزیر دفاع اور سیکریٹری دفاع کو ۲۹ نومبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے۔
سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی نے سرکاری وکیل سے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کمیشن بنا کر پاکستان میں لاپتہ افراد کو تلاش کرے، آپ ملک اور اداروں کی بدنامی کروا رہے ہیں، پہلے بھی سیکریٹری ڈیفنس اور داخلہ کو کروڑ کروڑ روپیہ جرمانہ ہوا مگر دو رکنی بینچ میں عمل درآمد رک گیا اور لوگ بھی بازیاب نہیں ہوئے، وزیر اعظم نے کیوں آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ یا تو لاپتہ طالب علم کو یہاں لا کر کھڑا کر دیں اور جیسے کہ ہو رہا ہے وہ آ کر کہہ دیتا ہے کہ میں غلطی سے چلا گیا تھا اور عدالتوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذاق ہو رہا ہے۔
جبری گمشدگی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران عدالتی حکم پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل پیش ہوئے.
جسٹس کیانی نے کہا کہ جی دوگل صاحب پہلے تو آپ کو بتادیں کہ یہ کیس ہے کیا تاکہ صورتحال واضح ہو جائے ،آج اس کیس کی اکیسویں تاریخ تھی.
اس سے قبل جسٹس اطہر من اللہ جو چیف جسٹس تھے ان کے پاس تھا یہ کیس ، عدالت کے حکم پر کمیشن بنا کمیشن قائم ہوا اس میں سوالات پیش کیے گئے .
جسٹس کیانی کا کہنا تھا کہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجا گیا جبری گمشدگیوں کا معاملہ تھا، صرف ایک کا نہیں 51 بلوچ طلباء کا معاملہ تھا ، ہم نے ملک کے وزیر اعظم کو معاملہ بھیجا ، وزیر اعظم کو خود احساس ہونا چاہیے تھا ہم سمجھے وہ آکر کہیں گے یہ ہمارے بچے ہیں، اگر ان کے خلاف کوئی کریمنل کیس تھا تو رجسٹرڈ کرتے ، آپ رپورٹ پڑھیں جو ہمیں پیش کی گئی ہے.
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جو بھی معاملہ ہوا متعلقہ وزارت دیکھتی ہے یا سب کمیٹی کے سامنے بھیجا جاتا ہے، کمیٹی پھر معاملہ وزیر اعظم اور کابینہ کے ساتھ شئیر کرتی ہے.
جسٹس کیانی نے کہا کہ اس ہائی کورٹ نے وزیراعظم کو بلایا ، جو کمیشن تھا اس میں کافی ہائی پروفائل لوگ شامل تھے سب لکھا گیا ، لیکن اس کے باوجود کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہوئی.
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اصل مقصد کمیشن کا تھا جو لوگ لاپتہ ہیں انھیں بازیاب کرانا ہے.یہ عدالت کتنے فیصلے دے چکی ہے ؟
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کمیشن نے کوئی کام نہیں کیا یہ بہت بڑا المیہ ہے ، یہ کمیشن صرف عدالتوں کے فیصلوں کو بائی پاس کرنے کے لیے بنا ہے، عدالت نے تو اپنا کام کرنا ہے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے ، آج اکیسویں تاریخ میں بھی ہم اسی جگہ پر کھڑے ہیں ،
ہم سمجھے آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہوں گی اور لوگ واپس آجائیں گے ، یہ سٹیٹ کی زمہ داری ہے اور تھی کہ ریاست کہتی کہ اب وہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہیں.
ہم بھی پچھلے کئی سالوں سے یہی دیکھ رہے ہیں،لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم وزراء کمیٹی کی رپورٹ مسترد کر دی گئی.
اس میں ایسی کوئی بات نہیں ، سب مزاق بنایا جا رہا ہے ،
اس سے بڑھ کر اور کیا توہین ہوگی اس ملک کے لوگوں کے ساتھ جب لوگ لاپتہ ہورہے ہیں.
یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں جن کو بلا رہے ہیں ، ہم اسلام آباد میں بیٹھ کر بلوچستان کے حقوق کی بات کر رہے ہیں ، سات روز کا وقت دیتا ہوں عمل درآمد کریں.