اہم خبریں متفرق خبریں

انتخابی نشان کا فیصلہ: دو غیرمعمولی اور غیرجانبدار قانون دانوں کا ردعمل

جنوری 14, 2024 2 min

انتخابی نشان کا فیصلہ: دو غیرمعمولی اور غیرجانبدار قانون دانوں کا ردعمل

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ کے تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دینے کے بعد اس پر ملک بھر کے قانونی حلقے مختلف ردعمل دکھا رہے ہیں۔

کئی غیرجانبدار قانون دانوں نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور ایسے حکمنامے کو بدقسمتی قرار دیا ہے۔

ماہر آئین و قانون ریما عمر نے اس پر کہا کہ:

تحریک انصاف کے انتخابی نشان کو مسترد کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھنے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کا ایک حد سے زیادہ، تعزیری ردعمل ہے۔

ریما عمر نے کہا کہ یہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی شرکت کے حوالے سے ہمارے بنیادی حقوق کے قانونی اصول کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔

انہوں نے اس فیصلے کو انتہائی بدقسمتی قرار دیا ہے۔

قانون دان بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بھی اس فیصلے پر ردعمل میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 215 اب نیا آرٹیکل 62 ون (f) بن گیا ہے اور اس کو الیکشن کمیشن، عدلیہ کے ذریعے ناپسندیدہ سمجھے جانے والوں کو سیاست سے پاک کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کرے گا؟

متعدد قانون دانوں نے تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قانونی ردعمل پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنا نہیں بنتا اور یہ ایک غلط روایت الیکشن کمیشن نے ڈالی جس کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے مان لیا جو کسی طور پر قابلِ ستائش نہیں۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ‘بلے’ کیس کا فیصلہ بدنام زمانہ ‘مولوی تمیز الدین کیس’ کی صف میں شامل ہو جائے گا جس نے قانونی تکنیکوں کی دھواں کی سکرین کے پیچھے چھپ کر جمہوری آئینیت کو جان لیوا نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "آج تاریخ پوچھے گی: کیا 2018 کی سیاسی انجینئرنگ، 24-2023 سے مختلف ہے،”

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے