قاضی کا دوسرا چہرہ
Reading Time: 3 minutesیہ چیف جسٹس کی کرسی میں ایسا کیا ہے کہ اس پر بیٹھا شخص ایک جرنیل کی سازش ناکام بنا کر دوسرے جرنیل کی گود میں بیٹھ کر کلکاریاں مار کر خوش ہوتا ہے۔
افتخار محمد چودھری نے جنرل مشرف کی طرف سے اپنی برطرفی کا بدلہ جنرل کیانی کی گود میں بیٹھ کر لیا، اور آئین اور سیاست کو رسوا کرنے والے ساتھی جج جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بجا طور پر ذلیل و رسوا کیا مگر ساتھ میں جنرل کیانی کو مضبوط بنانے کے لیے آصف زرداری کی حکومت اور سیاست دانوں کو سو موٹو اختیارات کے ذریعے ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آصف زرداری کا قصور افتخار چودھری کی فوری بحالی کی مخالفت تھی، جنرل کیانی اور بحال شدہ افتخار چودھری نے پھر مل کر سیاستدانوں اور سویلین حکومت کرپشن کے الزامات پر یرغمال بنا کر رکھا-
آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان کی مخلوط حکومت نے جسٹس فائز عیسی کو ذاتی طور پراور اِس ملک کے سیاسی اور عدالتی نظام کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا جس میں ثاقب نثار، آصف سعید خان کھوسہ اور بندیال ٹائپ ججوں کا گھناؤنا کردار رہا ہے مگر اب چیف جسٹس فائز عیسی کیا کر رہے ہیں؟
افتخار چودھری کی طرح معجزاتی بحالی کے بعد چیف جسٹس فائز عیسی کو بھی جسٹس اعجاز الاحسن کا سر طشتری میں پیش کیا گیا ہے بالکل اُسی طرح جس طرح جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور ساتھی پی سی او ججز کو افتخار چودھری کی رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔
ویسے تو ایسے استعمال شدہ ججوں کے ساتھ جتنا بھی ہوا وہ بہت کم تھا مگر پھر یہ ہر بحال شدہ چیف جسٹس ہر نئی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لیے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنا اپنا مذہبی فریضہ کیوں سمجھتا ہے.
بحال شدہ افتخار محمد چودھری نے ایک لومڑی کی مانند اسٹیبلشمنٹ کے بوڑھے شیر کے غار تک آصف زرداری اور سویلین حکومت کو گھیر کر لایا، بالکل اِسی طرح بحال شدہ قاضی فائز عیسی بھی جسٹس اعجاز الاحسن کے سر کو اسٹیبلشمنٹ کا تحفہ سمجھ کر اب عمران خان، اُس کی سیاسی جماعت اور ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی انجینئیرنگ کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
افتخار چودھری کو بھی اپنی شہرت اور عوامی مقبولیت پر ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا جس کا نتیجہ اس کے بیٹے ارسلان کے کارناموں کی صورت میں سامنے آیا اور قاضی فائز عیسی بھی اُسی راستے پر چل نکلے ہیں۔
بلے کے نشان پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا فیصلہ ایک طرف عمران خان اور پی ٹی آئی کے اُس گھناؤنے پراپیگنڈے کا براہ راست جواب ہے جو ان کی حکومت میں صدارتی ریفرنس کے دوران کیا گیا۔ تو دوسری طرف ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی سازش کا حصہ بھی ہے۔
ایک تیر سے دو شکار ہو گئے ہیں، عمران خان اور اُس کی پارٹی کے ساتھ جو ہوا وہ ان کا اپنا کیا دھرا ضرور تھا مگر بطور سپریم کورٹ اور بطورچیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جس طریقے سے بلے کے نشان کے کیس کی سماعت کی اور دنیا نے براہ راست دیکھا وہ کسی طور بھی ذاتی رنجش اور انتقامی جذبے سے مبرا نہیں تھا۔
آج کا جنرل کیانی اور افتخار چودھری ایک بار پھر آج کے زرداری کے درپے ہیں۔
بلے کے نشان کے مقدمے کی سماعت میں قاضی فائز عیسی نے ایک جج کی بجائے الیکشن کمیشن کے وکیل کا کردار ادا کیا، آئینِ پاکستان کے دفاع کا حلف اُٹھانے والے سپریم کورٹ کے تین ججوں نے ایک سیاسی جماعت (پی ٹی آئی) کے آئین پر عملدرآمد میں جتنی دلچسپی دکھائی اُس سے واضح طور پر انتقام اور ذاتی رنجش کی بو آ رہی تھی.
یہ وہی چیف جسٹس تھے جو ایف بی آر اور دیگر قوانین کی خلاف ورزی کے دفاع میں بجا طور پر آئینِ پاکستان کی شق ۲۰۹ اور عدلیہ کی آزادی کی قوالی کرتے نہیں تھکتے تھے، اور اب جب مخالفین کا کیس سامنے آیا تو الیکشن ایکٹ عیسی کی بائبل بن گیا۔
آئین کی تشریح پر انا کی تسکین حاوی ہو گئی، اعجاز الحسن کا استعفی، چند لاپتہ افراد کا واپس آ جانا، سیکرٹری دفاع کا افواج پاکستان کا افواج پاکستان کو خط، اس سب سے انا کی تسکین تو ہو جائے گی آئین کی تشریح نہیں۔
آئین کی شق ۱۷ میں تنظیم سازی کا بنیادی حق عام شہری کا ہے مگر جج صاحب کے لیے اکبر ایس بابر کا پی ٹی آئی کا بانی رکن ہونا مقدس واقعہ ٹھہرا۔
سیاسی جماعت کے آئین اور الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی تو شاید پی ٹی آئی نے ہی کر رکھی تھی کیونکہ کسی اور پارٹی کے کارکن نے شکایت ہی نہیں کی تھی ، واہ قاضی تیرا انصاف، آئین کے آرٹیکل 2017 (صاف شفاف انتخابات)پر الیکشن ایکٹ حاوی ہو گیا، یہ سب عدالتی انجینئیرنگ نہیں تو کیا ہے۔
قاضی فائز عیسی کا یہ نیا رخ (شاید پرانا) کیا گل کھلائے گا؟
یہ چیف جسٹس کی کرسی میں ایسا کیا چُبھتا ہے جو اُسے اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ میں اپنی شکل تلاش کرتے رہنے پر مجبور کرتا رہتا ہے، ظالمو قاضی ہمارے ہاتھ سے جا رہا ہے۔