غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پیر تک ہو سکتی ہے: امریکی صدر
Reading Time: 2 minutesامریکہ کے صدر جو بائیڈن نے امید ظاہر کی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ اگلے پیر تک نافذالعمل ہو سکتا ہے، جس کے بعد دونوں کے درمیان جنگ رُک جائے گی اور باقی ماندہ یرغمالی بھی رہا ہو جائیں گے۔
نیویارک میں این بی سی ٹی وی کو انٹرویو دینے کے بعد صحافیوں نے جب امریکی صدر جو بائیڈن سے پوچھا کہ ان کے خیال میں کب تک غزہ میں جنگ بندی پر عمل شروع ہو سکتا ہے؟
تو امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’مجھے امید ہے کہ اس ہفتے کے آخر تک عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ میری سکیورٹی ایڈوائز نے بتایا ہے کہ اگرچہ ابھی معاملہ پوری طرح مکمل نہیں ہوا مگر ہم اس کے قریب پہنچ چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے امید ہے کہ اگلے پیر تک جنگ بندی ہو جائے گی۔‘
اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک ہفتے کے دورانیہ کی جنگ بندی کے لیے بات چیت جاری ہے۔ جس کا مقصد غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل کے پاس سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہے۔
مجوزہ چھ ہفتے پر مشتمل جنگ بندی کی بدولت ان سینکڑوں امدادی سامان پر مشتمل ٹرکوں کو بھی غزہ داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی جن کی غزہ میں شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
مذاکرات میں شامل فریقوں کو مارچ میں مقدس مہینے رمضان کی شکل میں ایک غیرسرکاری ڈیڈلائن کا بھی سامنا ہے اور اس دوران اکثر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے پیر کے روز بتایا کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی اعلٰی عدالت کے ان احکامات پر عمل نہیں کیا جن میں غزہ میں فوری امدادی سامان بھجوانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں دائر کرائی گئی درخواست میں اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کا الزام لگایا گیا تھا جس پر عدالت نے اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ علاقے میں نسل کشی اور تباہی کی کسی بھی کارروائی کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔