فیض آباد دھرنا، انکوائری کمیشن کا مقصد فیض حمید کو کلین چٹ دینا تھا: چیف جسٹس
Reading Time: 2 minutesپاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ایسا لگا کہ فیض آباد دھرنا کمیشن کی انکوائری کا مقصد فیض حمید کو کلین چٹ دینا تھا۔
پیر کو سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف 15 نظر ثانی درخواستیں دائر کرنا کیا حسن اتفاق تھا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواستیں کیوں دائر ہوئیں؟ یہ سوال صرف ڈی جی آئی بی ،چئیرمین پیمرا اور وزارت دفاع سے ہی پوچھا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر یہ بات پوچھنی ہی تھی تو سب سے پوچھ لیتے۔
عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل نے ڈی جی آئی بی کا بیان پڑھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے ڈی جی آئی بی نے گھر سے رپورٹ بنوا کے جمع کروا دی،
یہ رپورٹ بہت مایوس کن ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک لبیک فریق تھی لیکن اسے کمیشن نے بلایا تک نہیں۔
کیا کمیشن کو تحریک لبیک سے ڈر لگ رہا تھا ؟
چیف جسٹس
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ جنہوں نے دھرنا مظاہرین کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کیں انہیں تو بلا کر بیانات لیے گئے، تحریکِ لبیک کو کیوں نہیں بلایا گیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ انکوائری کمیشن رپورٹ کے بجائے اخبار میں آرٹیکل لکھ دیتا، انکوائری کمیشن والے تو دفتر سے باہر تک نہیں نکلے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک چیف جسٹس تو ایک بم بنانے والی فیکٹری تک گیا تھا۔
چیف جسٹس کے مطابق کمیشن نے جو انگریزی رپورٹ میں استعمال ہی وہ بھی غلط ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ادھر ادھر سے محاورے اٹھائے اور رپورٹ میں ڈال کے بھیج دیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لگتا ہے پوری انکوائری کمیشن رپورٹ کا مقصد فیض حمید کو کلین چٹ دینا تھا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیض حمید نے بیان میں کہا کہ آئی ایس آئی نے دھرنے کے لیے فنڈنگ نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیض حمید نے یہ فتویٰ دیا اور کمیشن والوں نے مان لیا، کیا فیض حمید کو ذاتی حیثیت میں بلایا گیا تھا ؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو سوالنامہ بھیجا تھا جس جواب آیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اوہ ہو اچھا ! انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو بلانے کی جرات تک نہیں کی؟
ہم نے تو اپنے فیصلے میں فیض حمید کا نام تک نہیں لکھا تھا۔