زندہ جلایا جانے والا بدنصیب سیاح میرا کلاس فیلو تھا
Reading Time: 3 minutesجواد میر ایڈووکیٹ . سیالکوٹ
سلیمان قمر ۲۹ نومبر ۱۹۸۷ کو قمر عزیز کے گھر بلال سٹریٹ محلہ پاکپورہ سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گھر میں پیدا ہوا، اس کا تعلق آرائیں برادری سے تھا، اس کے والد ایک پٹرول پمپ پہ کام کرتے تھے اور مجھے یاد پڑتا ہے ان کے پاس سہراب سائیکل ہوا کرتی تھی۔
جب ہم شاید چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے تو اس کے والد وفات پا گئے تھے، سلیمان نے منعم الدین ماڈل سکول پاکپورہ سیالکوٹ سے مڈل تک تعلیم حاصل کی، اس کے بعد ہم نے میٹرک کے لیے ہارورڈ گرامر سکول کچہری روڈ سیالکوٹ میں داخلہ لیا، جہاں سے میٹرک تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد انٹر تک تعلیم اکٹھے حاصل کی، اور تب پاکپورہ میں ہی اکٹھے مختلف اکیڈمیز میں ٹیوشنز بھی پڑھتے رہے۔
والد کی وفات کی وجہ سے اور گھر میں سب سے بڑا بیٹا ہونے کے ناطے کمانے کی ذمہ داری کندھوں پہ آگئی اور وہ روزگار کی تلاش میں ملائیشیا چلا گیا، وہاں جا کر قسمت نے اس کا ساتھ دیا اور اس نے اپنے کاروبار کو خوب بڑھایا، اور خود کو اور اپنی فیملی کو کھڑا کیا۔
اس کا پاکستان آنا جانا لگا رہتا تھا اس لیے بعد میں بھی اکثر اس سے ملاقات رہتی تھی، ہم میں سے تقریباً سب دوست مذہبی نیچر کے تھے، ہم میں سے کوئی بھی سیکولر یا دہریہ قسم کا نہیں تھا، ہمیں یاد ہے ہم دوست اکثر باجماعت نماز اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔
مقتول سلیمان، فیض احمد فیض، اقبال، اور میر تقی میر کی شاعری سے شغف رکھتا تھا اور اکثر گفتگو میں شاعری کا استعمال کرتا تھا۔
سلیمان ایک زندہ دل اور زندگی کو جینے والا انسان تھا اور مستقبل کو لے کر بڑے منصوبے رکھتا تھا، مدین سانحہ کے بعد اس کی زندگی، اس کے نشہ کرنے کی عادت اور اس کے گھریلو جھگڑوں کا بارہا ذکر کیا جا رہا ہے اس لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ شروع سے ہی ایسا نہیں تھا، یہ تبدیلی اس میں ڈیڑھ دو سال پہلے آئی تھی جب اس کے اپنے گھر میں جائیداد کے جھگڑے شروع ہوئے تھے، جس وجہ سے وہ ڈیپریشن میں رہنے لگا تھا، اور دوستوں سے ملنا جلنا کافی کم کر دیا تھا۔
اس کی فیملی میں یہ مسائل طول پکڑتے گئے جس کی وجہ سے اس میں کافی بدلاؤ آیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مستقل ذہنی مریض یا سائیکو قسم کا انسان تھا، وہ کسی کا نقصان سوچنے والا شخص نہیں تھا، وہ بہت سخاوت کرنے والا انسان تھا، اکثر وہ ان مریضوں کی بھی مدد کرتا تھا جو اپنا ہسپتال کا بل ادا نہیں کر سکتے۔
اس کے موجودہ گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے اس میں ڈپریشن تو کافی آیا لیکن ہم سب دوست گواہ ہیں کہ بچپن سے لے کر اس کے آخری وقت تک ہم نے اس میں مذہبی حوالے سے کوئی عیب نہیں دیکھا، نہ تو اس نے کبھی مذہبی بحث و مباحثے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا، نہ ہی اس میں کوئی مذہبی بیزاری جیسی عادت تھی، نہ ہی اس نے کبھی اسلامی شعائر یا کسی رکن کا مذاق اڑایا، ہم سب دوست اس بات کے گواہ ہیں۔
آخری وقت میں جب اس نے خود کو سب سے الگ تھلگ کرلیا تھا تب بھی وہ جن دوستوں سے ملتا رہا ہے وہ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ گھریلو مسائل کی وجہ سے بدلا بدلا ضرور لگا ہے لیکن اس کے منہ سے تب بھی مذہب یا مذہب کے خلاف کوئی توہین آمیز بات نہیں سنی، بلکہ ایک دوست کے الفاظ ہیں کہ وہ کہا کرتا تھا کہ میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہتا ہوں، اس کے علاوہ اسے مذہبی طور پر مولانا رومی سے عقیدت تھی، اور اس کے علاوہ وہ جاوید غامدی کے لیکچرز بھی سنا کرتا تھا۔
سلیمان کی زندگی کے یہ پہلو آپ سب کے سامنے رکھنا اس لیے ضروری ہیں کہ کسی پہ بغیر تحقیق کے سنگین الزام لگا کر اسے بدترین طریقے سے قتل کر دینا کتنا آسان ہے۔
کاش لوگ اس پہ الزام ثابت ہونے کا انتظار کرتے جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ قانون اپنا کام نہیں کرتا اس لیے لوگ ایسا کرتے ہیں وہ یہ بات تب کہتے اگر پولیس نے اسے چھوڑ دیا ہوتا، ویسے بھی اسے پولیس نے گرفتار کرلیا تھا، اور اس پہ ایف آئی آر ہو چکی تھی، اگر تفتیش میں الزام ثابت ہوتا تو اسے سزا ہوتی، ویسے اسے سوات ہی ملا تھا کہ وہ وہاں جا کہ توہین کرے گا۔
اس واقعے کی اگر آزادانہ تحقیقات ہوئی تو یہ ضرور کوئی اور معاملہ نکلے گا، ہمیں اس کی اتنی دردناک موت پہ شدید دکھ ہے، جنگ کے وقت بھی نبی کریم ﷺ نے کسی دشمن کی لاش کا مثلہ کرنے اور جلانے سے بھی منع فرمایا ہے، وہ تو پھر بھی مسلمان تھا، ایسی درندگی کرنے والے جنونی وحشی لوگ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی نابلد ہیں۔
آخر میں میری اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ اس کے لواحقین کو سیکورٹی فراہم کی جائے تاکہ ان تک یہ درندے نہ پہنچ سکیں، اور تمام مجرموں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔