متفرق خبریں

سعودی عرب میں شراب کی فروخت کا لائسنس، حقیقت کیا ہے؟

مئی 27, 2025

سعودی عرب میں شراب کی فروخت کا لائسنس، حقیقت کیا ہے؟

منصور ندیم
فیس بک وال پر کمنٹس میں سوال پوچھا جارہا ہے، بہت سارے لوگ مجھے انبکس و کچھ لوگ مختلف جگہوں پر مجھے مینشن کرکے پوچھ رہے ہیں.

اب پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھا جارہا ہے؟ شاید اس لیے کہ میں سعودی عرب کے بارے میں بہت کچھ لکھتا رہتا ہوں یہاں کی سیاحت کے بارے میں یہاں کے کلچر کے بارے میں میں اپنے مشاہدات لکھتا ہوں، لیکن میں بحیثیت فرد اس ریاست میں کیا حیثیت رکھتا ہوں فقط ایک مزدور کی حیثیت رکھتا ہوں، جسے یہاں کے ایک نجی ادارے نے بطور ملازم ریاست سے اپروول کروا کر منگوایا ہوا ہے۔ میں کسی بھی ریاستی فیصلے کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔

ابھی تک میں نے کسی بھی حکومتی ریفرنس سے اس خبر کی تصدیق نہیں دیکھی۔ لیکن میں یہ بھی نہیں کہتا کہ کچھ ایسا ناممکن بھی ہوسکتا ہے، میں ذاتی طور پر آج کی بات کر سکتا ہوں، آج کی تاریخ میں سعودی عرب میں کسی بھی قسم کی شراب و منشیات قانونی طور پر ممنوع ہے۔ آئندہ یہ ریاست اپنے داخلی معاملات کے لیے کیا فیصلہ کرتی ہے اور ان کا فیصلہ اپنے ملکی معاملات کے لیے انہیں کیسا لگتا ہے، یہ ان کا استحقاق ہے۔

لیکن موجودہ پرنس کی آمد سے پہلے بھی سعودی عرب میں جب میں 2009 میں آیا تھا تو میری یہی نوکری جو کیمیکل کمپنی کی ہے ، ہماری پروڈکٹس میں پانی کے پلانٹس کے کیمیکل اور سروسز بھی شامل ہیں، اس حوالے سے ضلع شرقی کے تمام شہروں کے تقریبا کئی بڑے شاپنگ مال، پنج ستارہ اور ست ستارہ ریستوران اور ہوٹل، رہائشی کمپاونڈ و سمندر کنارے لگژری انداز کے Resorts ہمارے کسٹمرز ہیں، جن کے پانی کے پلانٹ اور سوئمنگ پول کے حوالے سے میں نے یہاں پر کئی بار وزٹ کیا، تب بھی جب یہاں قانونی طور پر مولویوں کے اداروں کا راج تھا، تو ان کمپاونڈ اور بڑے ہوٹلوں کی داخل دنیا الگ ہی ہوتی تھی، یہاں میں نے آج سے 10 سال اور 15 سال پہلے بھی مخصوص سمندر کے کناروں پر بکنی و برا پہنے غیرملکی خواتین کو آزادانہ دیکھا ہوا ہے، ایسی کئی جگہوں پر جہاں عام آدمی کی رسائی نہیں ہوتی وہاں پر شراب بھی مل جاتی ہوگی، بس اتنا اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ایک الگ دنیا ضرور ہے۔ کچھ مخصوص طبقات کے لیے دنیا ہمیشہ آسان رہی ہے وہ جو چاہے، ہمیشہ جہاں چاہے کرتے رہیں۔

میں نے 15 سال سعودی عرب کی سماجی، معاشی و سیاحتی اور ثقافتی زندگی پر بےشمار مضامین لکھے ہیں، مگر میں نے کبھی ان موضوعات کو بغور مشاہدہ کیا ہے، نہ ہی یہ میرا میدان تھا، نہ ہی میری دلچسپی رہی، نہ ہی مجھے اس میں کوئی رغبت ہے، نہ ہی کبھی اس معاملے پر کچھ بھی لکھا ہے، لوگ اس بارے میں بہت کچھ بولتے ہیں، لکھتے ہیں، کہتے ہیں۔ مگر میں حقیقتا یہ بات ضرور جانتا ہوں کہ یہاں عمومی طور پر شراب، لاقانونیت، منشیات اور کسی بھی قسم کے خواتین کے حوالے سے کوئی بھیانک معاملات موجود نہیں ہیں۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا، نہ ہی اس طرح کے کسی ماحول سے میرا کوئی تعلق رہا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔ کراچی میری جنم بھومی ہے، کراچی میں آج سے 20 سال پہلے جو ہمارا گھر تھا، طارق روڈ پر حالی روڈ کے پاس اس گلی کے بالکل سامنے والی گلی میں وائن شاپ تھی، جس کے باہر باقاعدہ علاقے کے تھانے فیروز آباد کی ایک موبائل اس کی حفاظت کے لیے کھڑی ہوتی تھی، اس وائن شاپ سے جو لوگ شراب خریدنے آتے تھے، اس شراب خانے کا مالک مسلمان تھا اور وہ اس بات کی ضمانت دیتا تھا، کہ میری دکان سے اگر آپ شراب خرید کر پی سی ایچ ایس بلاک 2 میں کہیں سے بھی گزرو اور آپ کو کوئی پولیس والا روک لے اور آپ کے ساتھ کوئی زیادتی کرے یا آپ سے پیسے مانگے یا آپ سے شراب چھین لے، تو اس پولیس والے کا نام اور پیٹی نمبر لا کر دے دے وہ لوگ اس کی شراب بھی واپس کریں گے اور اس کی رقم بھی واپس دلوائیں گے اور اس پولیس والے سے معافی بھی منگوائیں گے۔

سنہء 2013 میں، میں نے یہ دوسرا اپارٹمنٹ لیا، جو جھیل پارک کے پاس ہے، اس سے بھی دو گلیاں آگے ایسی ہی ایک وائن شاپ موجود تھی، یعنی وہ آج بھی ہے، اس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے سامنے بھی ایک پولیس کی موبائل جو تھانہ فیروز آباد سے باقاعدہ اس وائن شاپ کی حفاظت کرتی ہے اور وہ لوگ بھی اپنے شراب خریدنے والے گاہکوں کو یہی بہترین سروسز دیتے ہیں، مزید اس برس میں نے گلشن اقبال میں گھر لے لیا ہے 13 ڈی کے پاس، مزے کی بات یہ ہے کہ 13 ڈی سے مین روڈ کی طرف جاتے ہوئے وہاں بھی میں نے ایک وائن شاپ دیکھی، رمضان میں میرا ایک دوست وہاں پر آیا اور اس کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے بتانے لگا کہ یہ یہاں کی مشہور وائن شاپ ہے، یہ رمضان میں تو بند ہوتی ہے لیکن رمضان میں گھر تک پہنچانے کی سہولت میسر ہوتی ہے، اب اس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ ان وائن شاپس پر جو شرابیں بکتی ہیں، ان کا برانڈ Murree bravery ہے، یہ خالصتا پاکستانی مینو فیکچرنگ ادارہ ہے ، جو پاکستانی لائسنس کے تحت حکومت سے منظور شدہ ہے۔

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف، تو جناب، میری بدقسمتی کہہ لیں کہ میں نے زندگی میں کبھی شراب نہیں پی، نہ ہی کبھی شراب کے موضوع کو کسی سے ڈسکس کیا کہ شراب کے موضوع پر میں کسی کو برا کہوں یا کسی کو اچھا کہوں، سعودی عرب کل شراب کے لائسنس دے گا، یا نہیں دے گا یہ ریاست کا فیصلہ ہے، میں سعودی عرب کی سماجی اور سیاسی زندگی کو بطور طالب علم لکھتا ہوں، سعودی عرب کے قوانین کے بارے میں میری پسندیدگی اس لیے ہے کہ میں یہاں پر انصاف کا بول بالا دیکھتا ہوں، سعودی عرب کے لوگ مذہبی طور پر کسی کی داخلی زندگی میں ٹانگ نہیں اڑاتے، سعودی عرب میں عام فرد کو دنیا بھر میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مجھے نہیں معلوم کہ سعودی عرب بحیثیت ریاست اپنے لیے کیا فیصلہ کرتا ہے یہ فیصلہ وہ اپنی ریاست کے طور پر کریں گے، میں تو ذاتی طور پر صرف یہ جانتا ہوں کہ میرا سعودی عرب میں کیا سٹیک ہے، میں یہاں پر اپنی فیملی کو پالنے کے لیے کمانے کے لیے بیٹھا ہوں، میری اہلیہ کینسر سٹیج فور سے یہاں پر ایک سروائیور کے طور پر علاج کروا رہی ہیں، وہ ایک ایسا علاج کروا رہی ہیں جس کا تصور بھی پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود کہ آپ کو اس فیصلے سے کہ سعودی عرب میں شراب کا لائسنس کھلتا ہے یا نہیں, تکلیف ہوتی ہے یا خوشی ہوتی ہے بہرحال مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

لیکن جو لوگ چسکے لینے کے لیے، یا واقعی دلی طور پر اس بات پر افسردہ ہیں، اور وہ لوگ اس کو مذمت کے طور پر پاکستان میں بیٹھ کر دیکھنا چاہتے ہیں، انہیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ پاکستان میں ایک فیکٹری دن رات پاکستانی لائسنس ہولڈر کے طور پر Murree bravery کے نام سے شراب بناتی ہے، اور اسی پاکستان کے ہر گلی محلے میں ریاستی تحفظ میں وہ شراب بکتی ہے، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، اہلحدیث و بریلوی حضرات و مفتی تقی عثمانی طارق جمیل و مسعود طارق کو پہلے اس پر ضرور توجہ دینا چاہئے۔ باقی جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سعودی عرب میں آج کی تاریخ میں ایسا کچھ ہو رہا تو آج کی تاریخ میں سعودی عرب میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا آنے والے وقت میں کیا ہوگا مجھے نہیں معلوم ہے۔ لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ آنے والے وقت میں جس سطح پر ہمارے ہاں لوگ سوچ رہے ہیں ایسا ویسا کچھ نہیں ہوگا، کہ جس تصور پر وہ سڑکوں پر قحبہ خانے تصور لئے بیٹھے ہیں۔ ویسے جنہوں نے سلطنت عثمانیہ کا حقیقی عہد تاریخ میں درست پڑھا ہوگا، تو انہیں اچھی طرح سے اندازہ ہوگا کہ مکہ کی گلیوں میں سلطنت عثمانیہ کے عہد میں قحبہ خانے انہوں نے ہی کھلوائے ہوئے تھے۔
نوٹ: اب سعودی عرب کے نیم سرکاری اخبار عرب نیوز نے تردید کی ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ موجود ہے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے