فوج اور طالبان دو ماہ میں پشتون علاقوں سے نکل جائیں: خیبر میں جرگے کا مطالبہ
Reading Time: 3 minutesپاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں تین روزہ پشتون جرگہ یا قومی عدالت نے اختتامی سیشن میں اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج اور طالبان دو ماہ میں پشتون علاقوں سے نکل جائیں۔
اتوار کی رات پختون قومی جرگہ اختتام پذیر ہو گیا جس میں اعلامیہ پڑھتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے کہا کہ جرگے نے فیصلہ کیا ہے کہ جس جگہ یہ اجتماع منعقد ہوا یہاں ایک عمارت بنے گی جس میں تمام پشتون سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے دفاتر ہوں گے۔
منظور پشتین نے کہا کہ دو مہینے میں فوج اس سرزمین سے نکل جائے، اگر فوج نہ نکلی تو پھر یہ جرگہ فیصلہ کرے گا کہ ہم نے کیسے ان کو نکالنا ہے۔
شرپسند جو بھی ہے گُڈ ہے یا بیڈ ان کو اس سرزمین سے نکلنا ہوگا۔ جرگے نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر ضلع اور ہر پارٹی سے 3 ہزار جوان ہوں گے جو کل 2لاکھ 40 ہزار بنتے ہیں، یہ لوگ امن میں یہ کردار ادا کریں گے۔
اس صوبے کے عوام کے وسائل پر جو لوگ غاصب ہوگئے ہیں اس کو قبضے چھوڑنے ہوں گے عوام کو اپنا حق دینا ہوگا۔
شہیدوں اور لاپتہ افراد کے لیے اور جن کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے ان کے لیے وکلاء کی ٹیم بنائی جائے گی اور پھر یہ جرگہ عدالتوں میں ان کے کیسز لڑے گا، اور عالمی عدالت تک بھی جائیں گے۔
بجلی اس صوبے کی پیدوار ہے قبائلی اضلاع میں مفت بجلی دی جائے گی اور صوبے کے دیگر اضلاع میں ایک یونٹ پر 5 روپے سے زیادہ نہیں ہوگا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ پھر بجلی ہی نہیں ہوگی اگر وفاقی حکومت بجلی لوڈشڈنگ کرے گی تو پھر جو تاریں اس صوبے سے گئی ہیں ان کو کاٹیں گے۔
افغانستان کے ساتھ تجارت کو بحال کیا جائے بغیر ویزہ کے افغانستان کے ساتھ تجارت کی اجازت دی جائے، اگر یہ نہیں ہوا تو پھر ڈیورنڈ لائن پر جو چیک پوسٹ ہے ان کو بند کریں گے۔
چمن سے لے کر دیر تک کے راستوں پر افغانستان سے تجارت کی اجازت دی جائے۔
جن قبیلوں کی آپس میں لڑائیاں ہے یہ جرگہ خاص کر کرم میں جو تنازعات ہیں اس کو حل کرے گا۔
اب بھتہ کوئی نہیں دے گا، جن کو بھتہ کی کال آئی تو پوری قوم اس کے ساتھ کھڑے ہوگی۔
جو آئی ڈی پیز ہے ان کو اپنے علاقوں میں لے کر جائیں گے جب وہ چاہیں گے اس وقت یہ جرگہ اُن کے ساتھ ہوگا اور اپنے علاقوں میں لے جائے گا۔
پختونوں کے ساتھ دیگر اضلاع میں جو مظالم ہورہے ہیں اب وہ بند کرنا ہوں گے۔
ایک نیا عمرانی معاہدہ کیا جائے جو یہاں کے عوام کی مرضی سے ہو۔
فوج کو سیاست میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے جنھوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے ان کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کی جائے،
پی ٹی ایم پر پابندی کا خاتمہ کیا جائے۔
جو لوگ شہید ہوئے وزیراعلی یہاں موجود ہیں اس پر کمیشن بنائے اور جو ملوث لوگ ہیں اُن کے خلاف کارروائی کی جائے۔
صوبے کا جتنا منافع ہے وفاق کے ذمے جو واجبات ہیں وہ جلد صوبے کو دیے جائیں۔
یہ جرگہ کوئی ملٹری کورٹ اور انٹرمنٹ سنٹر نہیں مانتے۔
پانی پر جو حق ہے وہ صوبے کو دیا جائے۔
جن کے شناختی کارڈ بلاک کیے گئے ہیں ان کو کھولا جائے اگر نہیں مانا گیا تو پھر پورا جرگہ اس کے لیے کھڑے ہوگا۔
جو بھی سیاسی قیدی ہیں ان کو رہا کیا جائے۔
اگر یہاں موجود کسی ایک فرد کے خلاف کارروائی ہوئی تو پھر یہ جرگہ سخت ترین فیصلہ کرے گا۔
ایکشن اِن ایڈ سول پاور کو ختم کیا جائے۔
ایک روایت یہ ہے کہ بدمعاشی مرد کرے گا اور اس کے بدلے میں پھر ان کی بہن یا بیٹی کو سورہ (ونی) میں دیاجائے گا ہم اس کو اب نہیں مانیں گے اور نہ کسی کو اس کی اجازت دی جائے گی۔
افغانستان میں خواتین کو تعلیم کی اجازت دی جائے۔
اس جرگہ سے یکجہتی کے لیے آئندہ اتوار کو تمام اضلاع میں جلسے ہوں گے۔
منظور پشتین نے کہا کہ سٹیچ پر وزیراعلی ہمارے ساتھ موجود ہیں، ہم وزیر اعلی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جو اس صوبے کے حقوق ہیں اس کے لئے اسمبلی سے بل پاس کرایا جائے۔
جرگہ کے شرکا سے حلف بھی لیا گیا۔