سوشل میڈیا اور عالمی سیاسی تاریخ کے سنہرے الفاظ: مبشر علی زیدی کی تحریر
Reading Time: 3 minutesسوشل میڈیا کے آنے کے بعد ایک انگریزی لفظ عام ہوا ہے، میم۔ اس کا تلفظ اردو کے حرف میم جیسا ہے۔ ابتدا میں اس کا مطلب تھا کوئی خیال، رویہ یا انداز جو عوام میں مقبول ہوجائے۔ اب اس کا مطلب ہے، سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے والی کوئی پوسٹ، مثلا طنز یا لطیفہ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ لفظ کس نے تخلیق کیا؟ اس کا سہرا ملحدوں کے بارہویں امام رچرڈ ڈاکنز کے سر ہے، جنھوں نے سوشل میڈیا کے ظہور سے بہت پہلے 1976 میں یہ لفظ پہلی بار استعمال کیا تھا۔
یہ بات مجھے پال ڈکسن کی کتاب آتھرزمز سے معلوم ہوئی۔ ڈکسن صحافی، ماہر لسانیات اور تاریخ داں ہیں۔ 85 سال کے ہوچکے ہیں اور کوئی 65 کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی لسانیات سے متعلق چار پانچ کتابیں میرے پاس ہیں اور سب مزے کی ہیں۔
آتھرزم میں سیکڑوں ایسے الفاظ، محاورے اور اصطلاحات ہیں جو آج کے زمانے میں مقبول ہیں لیکن انھیں عشروں، بعض صورتوں میں صدیوں پہلے ایجاد کیا گیا۔ مثلا افغانستان ازم پڑھ کر میں چونک اٹھا۔ پہلا خیال آیا کہ یہ زیادہ سے زیادہ 1980ء کے عشرے کا لفظ ہوگا۔ لیکن پتا چلا کہ یہ لفظ امریکی صحافی جینکن لائیڈ جونز نے گھڑا جو 1919 میں انتقال کرگئے تھے۔ اس لفظ کا مطلب ہے، مقامی مسائل کو نظرانداز کرکے دوردراز کے معاملات پر توجہ دینا۔ کون جانتا تھا کہ پون صدی بعد امریکا اس کی عملی تفسیر پیش کرے گا۔
کتاب میں الفاظ گھڑنے والوں کے نام اور جہاں تفصیل دستیاب ہوئی، وہاں سال اور واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے۔
کیپٹن جیمز کک نے اپنی ڈائری میں 1777 کا واقعہ لکھا جب ایک جزیرے ٹونگاٹیبو میں انھوں نے اپنے مقامی مہمانوں کو کھانے پر بلایا لیکن کسی نے کھانا نہیں کھایا کیونکہ وہ ان کے لیے ممنوع تھا۔ یہاں سے ممنوع کے لیے ٹیبو کا لفظ نکلا۔
لفظ سیل کے بارے میں پہلے کہیں میں پڑھ چکا تھا۔ یہاں وہ تفصیل موجود ہے کہ انگریز ماہر حیاتات رابرٹ ہوک نے 1665ء میں جب پہلی بار خوردبین سے جانداروں کے خلیوں کو دیکھا تو انھیں سیل کا نام دیا کیونکہ ان کی صورت کمرے جیسی تھی۔
سروائیول آف دا فٹسٹ کا نظریہ چارلس ڈارون سے منسوب ہے لیکن یہ اصطلاح انگریز فلسفی ہربرٹ اسپنسر نے گھڑی تھی۔ فیمنزم کا تعلق حقوق نسواں یعنی خواتین سے ہے لیکن لفظ فیمنسٹ ایک مرد الیگزینڈر ڈوما نے 1873 میں ایجاد کیا۔ فرانسیسی ادیب ڈوما کو ہم تھری مسکیٹیئرز اور دا کاونٹ آف مونٹی کرسٹو جیسی کہانیوں کی وجہ سے جانتے ہیں۔
بہت سے مقبول الفاظ مشہور ادیبوں کی تخلیق ہیں۔ لفظ ہسٹیریا ایڈگر ایلن پو کی کاوش ہے۔ لفظ ٹی شرٹ ایف سکاٹ فٹزجیرالڈ نے گھڑا۔ لفظ اگناسٹک آلڈس ہکسلے کے دادا تھامس ہنری ہکسلے نے تخلیق کیا۔ آلڈس ہکسلے کا ناول بریو نیو ورلڈ مشہور ہے۔ اس عنوان کے الفاظ شیکسپئیر نے ایجاد کیے تھے۔
شیکسپئیر کو انگریزی زبان میں سب سے زیادہ الفاظ شامل کرنے کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس نے 1728 الفاظ ایجاد کیے۔ جان ملٹن نے 630، بین جانسن نے 558 اور جان ڈن نے 342 الفاظ پیدا کیے۔
پال ڈکسن کی ایک اور کتاب کا عنوان ورڈز فرام وائٹ ہاوس ہے۔ اس میں انھوں نے وہ الفاظ، اصطلاحات اور مشہور جملے جمع کیے ہیں جو امریکی صدور نے تخلیق کیے یا مقبول بنائے۔
ان میں صدر تھامس جیفرسن کا درجہ سب سے بلند ہے جنھوں نے 110 نئے الفاظ ایجاد کیے اور 382 الفاظ کو نئے معنی عطا کیے۔ آکسفرڈ ڈکشنری میں ان کے 1850 کوٹیشنز درج ہیں جو بہت سے ادیبوں شاعروں سے زیادہ ہیں۔ آج کل کی خواتین پیڈی کیور باقاعدگی سے کرواتی ہیں لیکن یہ نہیں جانتی ہوں گی کہ یہ لفظ جیفرسن نے انھیں معنوں میں ایجاد کیا تھا۔
وہی زبانیں زندہ رہتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں جن میں نئے الفاظ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور جن کے ادیب، شاعر اور صحافی اس طرف توجہ کرتے ہیں۔ الحمداللہ اردو زندہ زبانوں میں سے ہے کیونکہ اس میں پروگرام تو وڑ گیا جیسے فریزز وقتا فوقتا سامنے آتے رہتے ہیں۔ لیکن مجھے اپنی صحافتی زندگی میں جو نیا لفظ سب سے زیادہ پسند آیا، وہ میرے دوست اور جیو کے سابق سینئر کولیگ محسن سعید نے ایجاد کیا تھا۔ کمال یہ ہوا کہ چند سال کے اندر وہ لفظ پوری دنیا میں اردو بولنے والے ہر شخص کے علم میں آگیا اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی کبھی نہ کبھی لکھ بول چکے ہوں گے۔
عالمی سیاسی تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جانے والا وہ لفظ "یوتھیا” ہے۔