اہم خبریں

پانامہ کیس میں ’سسلین مافیا‘ والے جسٹس ر عظمت سعید کا انتقال، سرکاری تعزیت کے بجائے خاموشی

فروری 13, 2025 3 min

پانامہ کیس میں ’سسلین مافیا‘ والے جسٹس ر عظمت سعید کا انتقال، سرکاری تعزیت کے بجائے خاموشی

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس عظمت سعید شیخ ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد لاہور میں انتقال کر گئے ہیں۔

انہوں نے 2012 سے 2019 تک سپریم کورٹ میں بطور جج خدمات سرانجام دیں۔

عظمت سعید شیخ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں یکم جون 2012 کو سپریم کورٹ میں مستقل جج کی حیثیت سے تعینات کیا گیا جبکہ وہ اگست 2019 میں اپنے عہدے کی مدت کی تکمیل پر ریٹائرڈ ہوئے.

وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے جنوری 2021 میں براڈشیٹ کے معاملے پر انکوائری کمیٹی قائم کی تو جسٹس عظمت سعید شیخ کو اس کا سربراہ مقرر کیا۔

سنہ 2007 میں جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگا کر چیف جسٹس افتخار چوہدری کو گھر میں نظربند کیا تو اس وقت جن ججز نے ایل ایف او پر حلف نہیں اٹھایا ان میں عظمت سعید شیخ بھی شامل تھے۔

بطور سپریم کورٹ جج ان کے کیرئیر میں سب سے بڑا فیصلہ پانامہ کیس کا تھا۔ وہ اُن ججز میں شامل تھے جنہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے اثاثہ جات کی چھان بین کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی۔

بعد ازاں اسی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کیا گیا۔

پرویز مشرف کے دور میں جب قومی احتساب بیورو یعنی نیب کا ادارہ بنایا گیا تو عظمت سعید شیخ 2001 میں اس کے ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے۔

واضح رہے کہ جب 2001 میں ان کو نیب کا ڈپٹی پراسیکیوٹر لگایا گیا تو اس وقت یہ ادارہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیرون ملک اثاثہ جات کی چھان بین کے لیے براڈشیٹ نامی کمپنی سے معاہدہ کر چکا تھا۔

عدالت عظمیٰ میں تعیناتی سے قبل وہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے عہدے پر تعینات تھے۔

سنہ 2004 میں مسلم لیگ ق کے دورِ حکومت میں انہیں پہلی مرتبہ لاہور ہائی کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا گیا، تاہم بعد ازاں 2005 میں وہ مستقل جج بن گئے۔

ان کے بارے میں اپنی یادداشتیں شیئر کرتے ہوئے صحافی اے وحید مراد نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ:

’رامی جاکت‘ والے پانامہ جج عظمت سعید گزر گئے۔

سال 2016 اور پھر 2017 سپریم کورٹ میں زیادہ ہنگامہ خیز رہے۔

پانامہ کیس کا پہلے والا فیصلہ آ چکا تھا جس میں پانچ رکنی بینچ کے دو ججز آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جبکہ جسٹس عظمت سعید سمیت دیگر تین نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے کر مزید ثبوت لانے کا فیصلہ دیا تھا۔

اس دوران جسٹس عظمت سعید کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ جب وہ راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے علاج کے بعد صحت یاب ہوئے اور سپریم کورٹ واپس آئے، تو کولیگ رپورٹر عمران وسیم کے ہمراہ اُن کی عیادت کرنے گیا۔

اس دوران میرا ایک ٹویٹ ڈسکس ہوا۔ وہ ٹویٹ میں نے پانامہ کیس کا پہلا فیصلہ آںے پر کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو یاد ہو کہ پہلے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ماریو پزو کی شہرہ آفاق تصنیف ’دی گاڈ فادر‘ ناول کے ڈائیلاگ لکھے تھے۔

میرا ٹویٹ لگ بھگ کچھ ایسا تھا کہ ’جب درخواست گزار (عمران خان) اپنے دلائل میں اخباری تراشے بطور ثبوت پیش کرے، اور مدعا علیہ (نواز شریف) اپنے دفاع میں قطری خط لائے، تو جج (آصف کھوسہ) اپنے فیصلے میں ناول کے ڈائیلاگ لکھتا ہے۔

اس ٹویٹ کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس عظمت سعید دیر تک ہنستے رہے اور کہا کہ پوٹھوہاری سمجھتے ہو؟
میں نے بتایا کہ جی، ہندکو سمجھنے کی وجہ سے پوٹھوہاری کی بھی سمجھ بوجھ ہے۔
کہنے لگے کہ ’تم بہت رامی جاکت ہو۔‘
پھر ایک دن جسٹس عظمت سعید نے دوران سماعت ن لیگیوں کو سسلین مافیا قرار دیا اور ہمیشہ کے لیے اُن کی گالیوں میں ’امر‘ ہو گئے۔

ایک بار کسی جج کی ریٹائرمنٹ کی تقریب کے موقع پر کھانے کے دوران بتایا کہ وہ اپنے ملازمین کا بہت خیال رکھتے ہیں، جب لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے تو اُن کے سرکاری ڈرائیور کا انتقال ہو گیا تو انہوں نے اُس کے بیٹے کو ’آؤٹ آف دی وے‘ جا کر سرکاری ملازمت پر لگوایا۔

میں نے یہ سُن کر کہا کہ ’سر، اس سے بہتر ہوتا کہ ایک جج ایسا کام کرنے کے بجائے اُن کو ذاتی ملازمت پر رکھ کر جیب سے تنخواہ دیتا۔‘ جواب میں بولے، تم (رپورٹر) لوگوں نے کسی کام کی تعریف نہیں کرنی، کسی کو بخشنا نہیں۔

اب وہ دنیا سے گزر گئے، سب نے ہی گزرنا ہے۔ اگلی کوئی دنیا ہے تو معاف کرنا خدا کا کام ہے، اور میں خدا نہیں۔
وہ خود خدا کی کرسی پر بیٹھے رہے مگر انصاف نہ کر سکے اور بہت سی جگہوں پر ذاتی تعصب نظر آیا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے