وائرل عید ویڈیوز: کارنیوالسک اظہار یا سماجی بے راہ روی؟
Reading Time: 4 minutesعلی ارقم – صحافی
عید کے موقع پر پشتون نوجوانوں کی تفریحی مقامات جیسے کراچی میں ساحل سمندر (سی ویو، ہاکس بے، دعا ریسٹورنٹ وغیرہ) پر ڈھول کی تھاپ پر بہت ہی منظم انداز میں روایتی رقص یعنی اتنڑ کا منظر کراچی والوں کے لیے نیا نہیں (بعض اوقات ڈھول بجانے والے ساتھ ہوتے ہیں اور اکثر ساؤنڈ سسٹم سے کام چلا لیا جاتا ہے). اکثر اوقات لوگ اس کے گرد جمع ہوکر اس سے محظوظ بھی ہوتے رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان وڈیوز کا وائرل ہونا کوئی نیا رجحان نہیں.
دوہزار اٹھارہ میں جعلی پولیس مقابلے میں قتل ہونے والے خوبرو جوان نقیب اللہ محسود کی سوشل میڈیا پر وجہ شہرت بھی ایسی ہی وڈیوز تھیں، واضح رہے کہ شہادت سے قبل نقیب اللہ محسود کے فیس بک پر ستائیس ہزار فالوورز تھے (یہ ٹک ٹاک اور ریلز سے پہلے کی بات ہے). نقیب کے مظلومانہ قتل پر ردعمل میں اس کی سوشل میڈیا پر مقبولیت بھی ایک عنصر تھا.
لیکن حالیہ برسوں میں ان ویڈیوز کی نوعیت میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ ایسی وڈیوز میں نوجوانوں کو بھڑکیلے رنگوں کے لباس پہنے یا چادر اوڑھے ، پھولوں کے ہار گلے میں لٹکائے اور خوبصورت روایتی رقص کے برعکس مضحکہ خیز انداز میں رقص کرتے، کھلی پک اپ گاڑیوں میں اودھم مچاتے، کولہے مٹکاتے یا دیگر عجیب و غریب جسمانی حرکات کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ان وڈیوز پر ردعمل میں کچھ لوگ ہنسی مذاق کرتے ہیں، کچھ ثقافتی زوال کا ماتم کرتے ہیں، اور کچھ اسے محض بے مقصد تفریح سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
جیسے پہلی پوسٹ میں عرض کیا، کیا یہ سب کچھ محض اتفاق ہے؟ یا پھر اس کے پیچھے کچھ سماجی اور ثقافتی عوامل کارفرما ہیں؟
کیا یہ نوجوان صرف تفریح کر رہے ہیں، یا وہ کسی گہرے سماجی اضطراب (social discontent) کا اظہار کر رہے ہیں؟
نیچے چند پیراگراف اسے علمی انداز میں سمجھنے کی ایک طالبعلمانہ کوشش ہے.
کارنیوالسک اظہار: ایک عارضی بغاوت
میرے خیال میں، یہ مظاہر کارنیوالسک (carnivalesque) اظہار کے زمرے میں آ سکتے ہیں، کارنیوالسک ایک ادبی، سماجی اور ثقافتی تصور ہے جو روسی دانشور میکھیل باختین (Mikhail Bakhtin) نے پیش کیا۔
باختین کے مطابق، کارنیوال محض ایک تہوار نہیں بلکہ ایک سماجی مظہر ہے، جس میں روایتی سماجی ضابطے عارضی طور پر معطل ہو جاتے ہیں اور ایک "الٹی دنیا” (inverted world) تخلیق ہوتی ہے۔ جسم، رقص، قہقہہ، اور مذاق کے ذریعے نیا اظہار سامنے آتا ہے اور طاقت اور اختیار کے معمول کے تعلقات الٹ پلٹ ہو جاتے ہیں.
یہ سب کچھ عارضی ہوتا ہے، یعنی کارنیوال کے بعد دنیا دوبارہ اپنی اصل حالت میں واپس آ جاتی ہے، لیکن اس عرصے میں لوگ ایک اجتماعی آزادی کا تجربہ کر لیتے ہیں۔
اب اس تصور کو پشتون ثقافتی پس منظر میں دیکھا جائے، تو یہ رجحان ایک خاص تضاد کا اظہار ہے۔ پشتون معاشرہ مضبوط ثقافتی رشتوں میں بندھا ہے، جس میں اجتماعی اداروں ڈیرہ حجرہ، طبقاتی اونچ نیچ، سوشل ہیرارکی (مشر کشر، بزرگ و نوجوان)، مردانگی کے مخصوص تصورات، وقار، اور سماجی ضوابط کو اہمیت دی جاتی ہے۔
رقص اور موسیقی بھی مخصوص ضوابط کے تحت آتے ہیں، جیسے کہ روایتی "اتنڑ”، جو منظم اور گروہی طور پر کیا جاتا ہے۔ جبکہ بے ساختہ، غیر روایتی اور مضحکہ خیز انداز میں ناچنا یا ہنگامہ کرنا، عمومی طور پر "غیر مردانہ” یا غیر سنجیدہ حرکت سمجھی جاتی ہے۔
پھر یوسفزئی قبائل میں تو مردوں کیلئے سرے سے رقص کا تصور ہی نہیں ہے، اسے عورتوں یا خواجہ سراؤں سے مخصوص کیا جاتا ہے. ویسے ہی چست لباس، بھڑکیلے رنگوں کا استعمال وغیرہ بھی مردانگی کے روایتی تصور کی ضد سمجھا جاتا ہے اور ایسے رجحانات کا اظہار کرنے والے کو زنخا (جنوٹئی، بدگ وغیرہ) کہا جاتا ہے.
دوسرا پہلو پشتون معاشرے میں مذہبی علما اور دینی تحریکوں کے گہرے اثر و رسوخ کی موجودگی ہے، جو زندگی کے بیشتر پہلوؤں کو مذہبی فرامین و احکامات کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں۔جس کے تحت موسیقی، رقص، اور تفریح کو اکثر مذہبی زاویے سے ناپسندیدہ اور غیر اسلامی قرار دیا جاتا ہے۔
تفریحی سرگرمیوں اور سماجی اظہار پر سخت گیر کنٹرول کی وجہ سے، نوجوانوں کے پاس اپنی توانائی اور جذبات کے اظہار کے کم مواقع رہ جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک، ریلز اور ایسے دیگر شارٹ وڈیوز پلیٹ فارمز نے ان سخت گیر اصولوں میں ایک دراڑ پیدا کردی ہے۔ ان نوجوانوں کو ایسی جگہیں میسر اگئی ہیں، جہاں وہ سماجی اور مذہبی ضوابط سے آزاد ہو کر اپنے انداز میں اظہار کر سکتے ہیں۔
ڈیجیٹل میلے، تہوار یا کارنیوال
چودہ اگست کے موقع پر، نیو ائیر کی رات، یا عید جیسے تہوار پر، جب عام طور پر خوشی اور جوش و خروش کا ماحول ہوتا ہے، یہ اظہار مزید شدت اختیار کر لیتا ہے اور پھر وائرل ہونے کی خواہش انہیں مزید بے باک ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غیر روایتی اور شاک ویلیو (shock value) رکھنے والا مواد زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس لیے مضحکہ خیز حرکات، بھڑکیلے رنگ کے لباس، مخصوص وضع قطع زیادہ توجہ حاصل کرتی اور وائرل ہونے کے امکانات بڑھاتی ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان جان بوجھ کر ایسا مواد تخلیق کرتے ہیں۔
اس رجحان پر عمومی ردعمل میں لوگ ان نوجوانوں کو گنوار، بیہودہ یا اپنے لسانی یا علاقائی پس منظر کے تحت باعث شرمندگی قرار دیتے ہیں۔ یا اسے ثقافتی گراوٹ یا روایتی اقدار سے انحراف کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لیکن کیا یہ کافی ہے؟ شاید ہمیں کچھ سنجیدہ سوالات اٹھانے کی ضرورت ہے:
یہ وائرل ویڈیوز اور ان پر ہونے والی بحث میں ہمیں کوئی فیصلہ صادر کرنے اور ان مظاہر کو صرف غیر سنجیدہ حرکتیں یا بدتمیزی سمجھنے کے بجائے، ان کے پیچھے چھپے سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی عوامل کو زیادہ گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے.