پاکستان پاکستان24

چیف جسٹس کا جواب

فروری 20, 2018 2 min

چیف جسٹس کا جواب

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ میں میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آبزرویشن دی ہے کہ آئین سے متصادم قانون کا جائزہ لیا جا سکتا ہے _

چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پیمرا ممبران کی تعیناتی اور حکومتی ہدایات کے اختیار سے پیمرا خود مختار نہیں لگتا، سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ حکومت نے آج تک ایک بار ہی پیمرا کو ہدایت جاری کی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات ایک ہو یا زیادہ تعداد سے فرق نہیں پڑتا، دیکھنا ہے قانون میں گنجائش ہے یا نہیں _

سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ فیض آباد دھرنے کے دوران حکومت نے پیمرا کو ہدایت جاری کی، حکومت نے پیمرا ایڈوائزری پر عمل نہ کرنے پر چینل بند کرنے کی ہدایت کی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ چینلز کھلوانے کے لئے حکم جاری کرنے ہی والا تھا کہ رجسٹرار نے چئیرمین پیمرا سے بات کی، رجسٹرار نے بتایا کہ 2 بجے چینلز کھول دئے جائیں گے، چینلز بند کرنے کا کام پیمرا کا ہے حکومت کا نہیں، میں نے بار بار کہا پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اوپر بھی ایک چیز ہے وہ آئین ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کل پیغام دیا گیا عدالت قانون میں مداخلت نہیں کر سکتی، پارلیمنٹ آئین سے متصادم قانون نہیں بنا سکتی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے انتظامیہ کے عمل اور بنیادی حقوق کو دیکھنا ہے، عدالت قانون سازی کے جائزے کا اختیار رکھتی ہے _

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن جو وعدے کرتی ہیں وہ قائم رہتے ہیں، میڈیا میرے الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر نشر نہ کرے، عدالت کے الفاظ سیاق و سباق سے ہٹ کر نشر کرنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں_

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پیمرا کے معاملے میں حکومت دو سال میں پیچھے ہی گئی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومت کی پیمرا کے معاملے میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی_ چیف جسٹس نے کہا کہ صاف بتائیں پیمرا کو آذاد کرنا ہے یا نہیں، ایک کیس میں ریمارکس نہیں کچھ سوالات پوچھے، میں وضاحت دینے کو اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہتا، چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمات میں سوالات اٹھتے ہیں اور اٹھانے پڑتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پوچھیں کہ فلاں شخص اہل ہے یا نہیں، کیا سوالات پوچھ کر ہم نے پارلیمنٹ یا پارلیمنٹیریننز کی توہین کردی ہے؟

پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ معاملہ کابینہ میں لے جانا پڑے گا،ہمیں دوہفتے کی مہلت دے دیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا فوکس پیمرا کے آزاد ہونے کے معاملے پر  ہے، حکومت پیمرا کے اسٹیٹس میں بہتری نہیں لاتی تو پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے _
چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ میں ہمارے ریمارکس ایک دوسرے کے موقف کوسمجھنے کیلئے ہوتے ہیں، ہمارے ریمارکس سوالات ہوتے ہیں، اگر یہ پوچھ لیں کہ فلاں شخص کوالیفائی کرتا ہے تو کیا پارلیمنٹ کی توہین ہے؟ کیا سوال پوچھنا کسی پارلیمنٹرینز کی توہین ہے، حامد میر نے کہا کہ لوگ اپ کے ریمارکس کا غلط مطلب لیتے ہیں، ریمارکس کوغور سے پڑھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے آپ نے کسی کوٹارگٹ نہیں کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم قطعاً نہیں گھبراتے، آئین اور قانون نے جو طاقت دی نیک نیتی سے استعمال کریں گے،

 

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے