اے ڈی خواجہ سے کیوں پریشان؟
Reading Time: 4 minutesسپریم کورٹ میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ تقرر کیس میں ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے سامنے دلائل میں سندھ حکومت کے وکیل فاروق نائیک نے کہا ہے کہ پولیس افسران کے تقرر اور تبادلے قانون کے مطابق انتطامیہ کا اختیار ہے ۔
سندھ حکومت کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار نے ہائی کورٹ میں پولیس ایکٹ 2011 کو کالعدم قرار دینے اور پولیس آرڈر 2002 کو بحال کرنے کی استدعا کی تھی، سندھ ہائی کورٹ نے درخواست گزار کی استدعا سے زیادہ ریلیف دے دیا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت کی صوابدید ہے جو مناسب سمجھے ریلیف دے، سندھ حکومت کو 1861 کے قانون کو 2011 کے قانون کے ذریعے بحال کرنے کی کیا ضرورت تھی، سندھ حکومت پولیس کے لیے نیاقانون بنائے ۔ میری رائے ہے کہ پورے پاکستان میں پولیس کے لیے یکساں قانون ہوناچاہیے، ایک قانون ہو جس کا اطلاق تمام صوبوں کی پولیس پر ہو، سندھ حکومت پولیس کے قانون میں جدت لائے، پورے پاکستان میں پولیس کا یکساں قانون نہ ہونا آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے تو وہ پولیس ڈسپلن کو کیسے برقرار رکھیں گے ۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت کے آئین کے متعلقہ آرٹیکلز کو بھی دیکھے، ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں، ہائیکورٹ استدعا سے بالاتر ریلیف نہیں دے سکتی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ بنیادی حقوق کی عملداری کے لئے ہدایات دے سکتی ہے، ہائیکورٹ آرٹیکل 199کے مقدمہ میں بنیادی حقوق کی عمل داری کے احکامات دے تو اعتراض کا جواز نہیں، لوگوں کوہم پرشک ہو جاتا ہے، عدالتی فیصلے بھی ہونے ہیں، ہمارے فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہونا ہے، قانونی سوالات پوچھنے کا ہمیں اختیار ہے ۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وکیل نے کہا کہ عدالت صوبائی اسمبلی کو قانون سازی سے روک نہیں سکتی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، قانون مجاز اتھارٹی سے منظور ہو جائے تو عدلیہ جائزہ لے سکتی ۔ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی کی مدت 3 سال ہونے کا جواز نہیں دیا، سندھ ہائی کورٹ نے پوسٹنگ اور ٹرانسفر کا اختیار بھی آئی جی کو دے دیا، یہ صوبہ سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک ہے، کسی صوبے میں آئی جی پولیس کے عہدے کی مدت 3سال نہیں ہے ۔
چیف جسٹس نے سندھ حکومت کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ اے ڈی خواجہ سے کیوں پریشان ہیں؟ اے ڈی خواجہ کے کتنے دن رہ گئے ہیں؟ ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ کھل کر کہتا ہوں اے ڈی خواجہ سے پریشانی نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر اس کیس کو دو سال کے لئے ملتوی کر دیتے ہیں ۔ فاروق نائیک نے کہا کہ کر دیں، میں قانون کی بات کر رہا ہوں، سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار پر قدغن نہیں لگا سکتی، پارلیمنٹ نے صوبوں کیلئے قانون سازی قواعد کا اختیار صوبائی حکومت تفویض کیا ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں اہم عہدوں پر افسران کی معیاد تین سال ہے، لگتا ہے سندھ ہائی کورٹ نے یکسانیت پیدا کرنے کے لیے آئی جی کی بھی مدت تین سال کر دی، کیا یہ صوبے کے مفاد میں ہوگا کہ آئی جی کو صوبائی حکومت کے کہنے پر جب چاہے ہٹا دیا جائے، پولیس کا کام کسی سیاسی مداخلت کے بغیر ہونا چاہیے ۔ اگر چیف سیکرٹری ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے کی معیاد تین سال ہے تو آئی جی کی کیوں نہیں ہو سکتی۔ سول سرونٹس کو سپریم کورٹ کے انتیا تراب کیس فیصلے کا بھی تحفظ حاصل ہے ۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بلوچستان میں آئی جی کی مدت 2 سال ہے ۔ چیف جسٹس نے پنجاب کا پوچھا تو وکیل نے کہا کہ تین سال ہے مگر صوبائی حکومت کم بھی کر سکتی ہے ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے ہوچھا کہ کیا ہمارے پاس اختیار نہیں کہ وفاقی و صوبائی اسمبلی کے آئین کے برخلاف بنائے قوانین کو کالعدم کر سکیں؟ جس قانون کو بنانے کا پارلیمنٹ کو اختیار نہیں، کیا ہم اسے ختم نہیں کر سکتے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ذرا اونچی آواز میں بتائیں، چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا بنیادی حقوق سے متصادم قانون کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا؟
فاروق نائیک نے کہا کہ عدالت کے پاس ایسا قانون کالعدم قرار دینے کا اختیار ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سادی سی بات ہے جو سمجھ نہیں آتی، لوگ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اس کا بنایا قانون کالعدم نہیں ہو سکتا، پارلیمنٹ کو سپریم ہم بھی مانتے ہیں، قانون کے تحفظ کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، کوئی شک نہیں کہ عام آدمی اور سمجھ بوجھ والے کی تشریح میں فرق ہوتا ہے، بتائیں آج تک کتنے قوانین کو کالعدم قرار دیا، سپریم کورٹ نے بہت کم قوانین کو کالعدم قرار دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ جنھیں قانون کا علم نہیں وہ بھی عدلیہ کے اختیار پر بات کرتے ہیں۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق سندھ حکومت کے وکیل نے کہا کہ آئین میں جو لکھا گیا عدلیہ اس میں اضافہ نہیں کرسکتی ۔ جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ صوبائی پولیس کا ہیڈ وفاق کا نامزد کردہ پولیس افسر ہوتا ہے ۔ وکیل سندھ حکومت نے کہا کہ وفاق کا ملازم اب صوبائی پولیس کا سربراہ نہیں لگ سکتا ۔ جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ فیڈریشن کا مطلب ہوتا ہے ایک دوسرے کے تعاون سے نظام چلانا ہے، دہائیاں گزر گئیں ہیں مشترکہ مفادات کونسل کو طاقتور ادارہ نہیں بنایا گیا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی آج تک کل کتنے اجلاس ہوئے، جس طرف آپ کی دلیل جارہی ہے ہمیں دیگر صوبوں کو نوٹس جاری کرنا پڑے گا، وفاق اور صوبے کے مابین تنازعہ پر آرٹیکل 184/1 کے تحت صوبوں کو سننا پڑتاہے، آپ کی دلیل پرہوسکتاہے لارجر بینچ بناناپڑے، میرے ساتھ بیٹھے ساتھی ججزکاتعلق پنجاب سے ہے، معاملہ اس طرف گیاتوطوالت بھی اختیار کرسکتاہے، بطور چیف جسٹس میراتعلق کسی صوبے سے نہیں ہے ۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق کیس کی سماعت 7مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا گیا ۔ عدالت نے سابق آئی جی شعیب سڈل کی مقدمہ میں فریق بننے کی درخواست لینے سے انکار کر دیا ۔ شعیب سڈل نے کہا کہ ایک مرتبہ میری درخواست دیکھ لیں، یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی مفاد کا آپ سے کیا تعلق ہے، ریٹائرڈ ملازم کا مقدمہ میں فریق بننے کا کیا حق دعوی ہے، زیادہ اصرار کرینگے تو جرمانہ کے ساتھ درخواست خارج ہوگی ۔