چیف جسٹس اور احسن اقبال میں مکالمہ
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں نادرا شناختی کارڈ فیس کیس میں پیش ہونے والے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور چیف جسٹس میں مکالمہ ہوا ہے ۔ عدالت عظمی نے قومی شناختی کارڈ بنانے والے ادارے نادرا کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے زیادہ کارڈ فیس لینے کے ازخود نوٹس میں وفاقی وزیر داخلہ کو طلب کیا تھا ۔
نادرا کیس سے پہلے اوکاڑہ کی یونین کونسل میں گندگی کا از خود نوٹس سماعت کے لئے مقرر تھا، مقامی آزاد کونسلرز نے عدالت کو مسائل سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ن لیگ کے لوگ قبضے کر رہے ہیں ۔ قبضوں کے الزامات پر ن لیگ کے ایم این اے رائو اجمل اور پنجاب کو وزیر رضا علی گیلانی اور مقامی چیئرمین ذوالفقار حیدر کو پیش ہونے کے نوٹس جاری کئے ۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے نادرا کیس میں وفاقی وزیر داخلہ کو بلاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں بلانے پر ناراض تو نہیں ہوئے؟ لگتا ہے ناراض سے بیٹھے ہیں ۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق احسن اقبال نے کہا کہ ناراض ہو کر کہاں جانا ہے، عدالت کا احترام کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بہت اہم لوگ ہیں، آج نہیں تو کل ملک کو قیادت دینی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی آپ نے حجرہ شاہ مقیم کا حال سن لیا، ان پر اجتماعی طور پر غور کریں ۔
احسن اقبال نے کہا کہ میں بھی ایک معاملہ سامنے لانا چاہتا ہوں، سات سال سے نارووال میں کالج زمین پر ہائیکورٹ جج نے اسٹے دے رکھا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں عدالتیں دشمن ہیں، مسائل عدالتوں کی وجہ سے ہیں؟ کیس کا نمبر بتائیں ابھی منگوا لیتا ہوں، احسن اقبال نے کہا کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، سات سال قبل لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کالج زمین منظور کرائی تھی، ایک پر عمارت بن چکی ہے دوسرا حکم امتناع کا شکار ہے ۔
قبل ازیں اوکاڑہ میں گندے پانی سے جنازہ گزارنے کی تصویر کے ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ جس جگہ کی تصویر تھی وہاں کے کونسلرز تشریف لائے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے دیکھا ہے اپ کے علاقہ میں کیا ہو رہا ہے، مقامی حکومت نے لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنا ہے، گندگی کی وجہ سے جنازہ لے جانے والوں کے کپڑے ناپاک ہوگئے ۔
پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق عدالت میں پیش ہونے والے کونسلر نے بتایا کہ ہم خود بھی جنازے میں شریک تھے، میں کونسلر نایاب کاشف ہوں، حجرہ شاہ مقیم کے وارڈ تیرہ کا علاقہ ہے ۔ آپ نے صرف ایک تصویر دیکھی ہے، ہم سے پوچھیں کہ جنازہ کہاں ادا کیا، مردہ کہاں دفنایا، لینڈ مافیا نے جنازہ گاہ اور قبرستان پر قبضہ کر رکھا ہے، حجرہ شاہ مقیم کے پارک کو پلاٹس بناکر فروخت کیا جارہا ہے، میونسل کمیٹی کے چیرمین نے جنازہ گاہ پر قبضہ کر رکھا ہے، بس اسٹینڈ بھی غیر قانونی طور پر اپنی بس ٹرانسپورٹ سروس کیلئے استعمال کر رہے ہیں ۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس علاقے سے ایم این اور ایم پی اے کون ہیں؟ ویسے تو یہ بلدیاتی معاملہ ہے ۔ کونسلر نے بتایا کہ راو اجمل ایم این اے اور رضا گیلانی ایم پی اے و صوبائی وزیر ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سارے کام میونسپل کمیٹی نے کرنے ہیں ۔ کونسلر نے بتایا کہ میونسپل کمیٹی کا چیئرمین صوبائی وزیر کا پھوپھا ہے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایم این اے اور ایم پی اے کو کتنے ترقیاتی فنڈز ملے ہیں، علاقے کی آبادی کتنی ہے؟
کونسلر نے بتایا کہ علاقے کی آبادی 76 ہزار ہے، ایم این اے کے فنڈز کا علم نہیں، میونسپل کمیٹی کو حکومت ماہانہ پندرہ لاکھ دیتی ہے جبکہ اس کی اپنی آمدن دس لاکھ ماہانہ ہے ۔ پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایم این اے اور ایم پی اے کا تعلق کس پارٹی سے ہے ۔ کونسلر نے بتایا کہ دونوں کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں اراکین اسملبی کو بلا لیتے ہیں، کونسلر تحریری شکایت ایک دن میں داخل کریں ۔
سپریم کورٹ نے ایم پی اے رضا علی گیلانی اور ایم این اے راو اجمل کو نوٹس جاری کر دیا ۔ عدالت نے میونسپل کمیٹی کے چیئرمین ذوالفقار شاہ کو بھی طلبی کا نوٹس جاری جواب دینے کی ہدایت کی ۔ سماعت دو دن بعد ہوگی ۔