آئی ایس آئی کا کیا اختیار؟ چیف جسٹس
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ میں پاکپتن کے ڈی پی او تبادلے کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے معاملے میں ملوث ہونے والے آئی ایس آئی کے کرنل طارق فیصل کی سخت سرزنش کی ہے ۔
کرنل طارق نے بتایا کہ پولیس افسر رضوان گوندل سے ان کا پرانا تعلق ہے اور دوست کے طور پر ان کو مشورہ دیا ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے پوچھا کہ کدھر ہے وہ آئی ایس آئی صاحب؟ ۔ عدالت میں پیش ہونے والے افسر نے کہا کہ میں کرنل طارق فیصل ہوں میری پوسٹنگ فیصل آباد میں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے آپ کا نام معلوم ہے، بتائیں اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟
کرنل طارق نے بتایا کہ مجھے ایک مشترکہ دوست نے کہا کہ رضوان گوندل کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو فون کر کے ان سے بات کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی اس طرح کام کرتی ہے؟ آئی ایس آئی کا ملک کے انتظامی معاملات میں کیا کردار ہے؟ کرنل طارق نے جواب دیا کہ یہ میرا ذاتی رابطہ تھا، میرے محکمے کا اس سے لینا دینا نہیں ، میری دوستی ہے آئی ایس آئی کا تعلق نہیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر شخص عدالت سے جھوٹ بول رہا ہے، آپ کے ادارے سے بھی پوچھ لیتے ہیں ۔ مقدمے کا آرڈر لکھواتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اور آپ بھی آئندہ سے احتیاط کریں آئی ایس آئی ۔ کتنے سال سے آئی ایس آئی میں ہیں؟ کرنل نے بتایا کہ سولہ سال ہو گئے ہیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بڑے افسروں کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور آپ اس طرح نجی سطح پر کام کرتے ہیں، لوگوں سے رابطے کرتے ہیں ۔ کرنل نے کہا کہ میں نے رضوان گوندل کو ڈیرے پر نہ جانے کیلئے کہا تھا مجھ سے منسوب کر کے غلط بیانی کی گئی ۔
عدالت نے کیس کے آرڈر میں آئی ایس آئی کے کرنل سے متعلق کچھ نہ لکھوایا ۔ عدالت نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ احسن گجر کے اس معاملے میں کردار کی انکوائری کی جائے اور اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو کارروائی کی جائے ۔ اس حوالے سے ایک ہفتے میں رپورٹ دی جائے ۔ سپریم کورٹ نے ایڈیشنل آئی جی کو ہدایت کی کہ پاکپتن میں مانیکا کی بیٹی سے بدتمیزی کی مزید تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داری کا تعین کیا جائے ، چیف جسٹس نے کہا کہ سابق ڈی پی او رضوان گوندل کے خلاف بھی کچھ بنتا ہے تو انضباطی کارروائی کریں ۔