طالبان امریکا مذاکرات کا نتیجہ نکلے گا؟
Reading Time: 1 minuteافغان طالبان اور امریکہ کے درمیان متحدہ عرب امارات میں جاری امن مذاکرات کے پہلے دن کے اختتام پر طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا پر بات ہوئی ہے ۔
ان مذاکرات میں اہم فریق افغان حکومت براہ راست شامل نہیں لیکن اس نے امن کیلئے اس کوشش کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔ امریکی دباؤ کے بعد پاکستان کی کوششوں سے شروع ہونے والے ان مذاکرات میں افغان طالبان اور امریکہ کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتیں بھی شامل ہیں ۔
طالبان کے قطر دفتر کے نمائندے کے علاوہ اس بات چیت میں طالبان کے عسکری اور سیاسی بازو کے چار اہم نمائندے شامل ہیں جن میں ملا امیر متقی، قاری یحییٰ، ملا محب اللہ حماس اور ملا عباس اخوند شامل ہیں ۔ مذاکرات میں امریکی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد ہیں جنہوں نے گذشتہ ایک ماہ کے دوران طالبان کے نمائندوں سے تین مرتبہ ملاقاتیں کیں ہیں ۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں جاری مذاکرات کے پہلے روز امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا، فوجی کارروائیوں روکنے اور افغانستان میں قیام امن کے عمل پر بات چیت کی گئی ۔ طالبان ترجمان کے مطابق مذاکراتی عمل کا حصہ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندوں سے بھی بات چیت کی گئی۔
دوسری جانب پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان نے ابوظہبی میں افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور وہ افغان عوام کی آزمائش کے ختم ہونے کے لیے دعاگو ہیں ۔ ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ‘ قیامِ امن کے لیے پاکستان سے جو بھی بن پڑے گا وہ کریں گے ۔