آسیہ بی بی بریت پر نظرثانی درخواست مسترد
Reading Time: 4 minutesسپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے پر نظر ثانی اپیل مسترد کر دی ہے ۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اس کیس میں بہت زیادہ جھوٹ بولا گیا، اگر عام مقدمہ ہوتا تو گواہان کے خلاف مقدمہ درج کرواتے، ہم نے بہت زیادہ تحمل سے کام لیا، سب گواہان کے بیانات میں واضح تضادات ہیں ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے درخواست گزار مولوی سلام کے وکیل سے کہا کہ آپ سارا پاکستان بلاک کردیتے ہیں کہ ہماری بات کیوں نہیں مانی گئی، الزام لگاتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں کہ بری کر دیا، اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں کیس کیا بنایا ہے ۔ کیا اسلام کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں؟
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی درخواست کی سماعت کی ۔ سماعت کے دوران قاری سلام کے وکیل کی لارجربینچ بنانے کی درخواست کی۔
وکیل غلام مصطفی ایڈوکیٹ نے کہا کہ معاملہ مسلم امہ کا ہے، عدالت مذہبی اسکالرزکو بھی معاونت کے لئے طلب کرے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اسلام کہتا ہے کہ جرم ثابت نہ ہونے پرسزا دی جائے، عدالت نے فیصلہ صرف شہادتوں پردیا ہے، کیا ایسی شہادتیں قابل اعتبار نہیں اور اگرعدالت نے شہادتوں کا غلط جائزہ لیا تودرستگی کریں گے لیکن آپ ثابت کریں کہ فیصلے میںکیا غلطی ہے
وکیل غلام مصطفی نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے کلمہ شہادت سے فیصلہ کروایا، جسٹس ثاقب نثار نے کلمہ شہادت کا غلط ترجمہ کیا جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ سابق چیف جسٹس اس وقت بینچ کا حصہ نہیں، وہ آپ کی بات کا جواب نہیں دیں گے اورلارجر بینچ کاکیس بنا ہوا تو ضروربنے گا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مو¿قف اختیار کیا کہ فیصلے میں کہا گیا بار ثبوت مدعی پر ہے جب کہ سپریم کورٹ کے کچھ نظائر کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اگر کسی بیان پر جرح نہ کی گئی ہو تو اس بیان کو درست سمجھا جاتا ہے اور یہ لارجر بینچ کا فیصلہ ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس اصول سے اختلاف کرتے ہیں۔ اگر کوئی وکیل ملزم سے سوال پوچھنا بھول جائے تو کیا اسے پھانسی لگا دیں۔ آپ میرٹ پر بات کریں۔ قاری محمدسلام کے وکیل نے کہا کہ بریت فیصلے میں آپ کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدے کا حوالہ دیا گیا ہے جب کہ تمام علماءنے اس معاہدے کو باطل کہا ہے۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے جزیہ سے بچنے کے لیے یہ معاہدہ بنایا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اقلیتوں کا خیال رکھو اور اسلامی معاشرے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اقلیتوں کا خیال رکھنا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے میرٹ پر بات کریں کہ غلطی کہاں ہے اور کہاں گواہوں کے بیانات کو ٹھیک نہیں پڑھا گیا۔ اس کے بعد وہ سب باتیں آئیں گی کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ سچی گواہی دو چاہے اپنے عزیز و اقارب کے خلاف بھی ہو، اگر ہم نے شہادتیں ٹھیک نہیں پڑھیں تو فورا درست کریں گے،
درخواست گزارکے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ خواتین گواہان نے کہا کہ انہیں نہیں پتہ آسیہ کس سے بات کر رہی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں بھی تو یہی لکھا ہے، آپ کہتے ہیں کہ آسیہ بی بی 25 لوگوں کو مخاطب کرکے کہہ رہی تھی،کیا وہ کسی جلسے سے خطاب کر رہی تھی ؟ تفتیشی افسر کے سامنے خواتین گواہان نے کہا کہ ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا،
چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیس میں اتنے سچے گواہ نہیں تھے جتنے ہونے چاہیں تھے،تفتیشی افسر کہتا ہے کہ خواتین گواہان نے بیان بدلے، تفتیشی افسر اور گواہان کے بیان میں فرق ہے اور فالسے کے کھیت کا مالک عدالت میں بیان کے لیئے آیا ہی نہیں،
پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ 342 کا بیان نہیں ریکارڈ کرایا تو بیان کی کوئی حیثیت نہیں، ایس پی نے جب تفتیش شروع کی تو تب فالسہ کھیت کا مالک آیا، تفتیش کے 20 دن بعد یہ میدان میں آیااس کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، بتائیں کیاکوئی بات ہم نے ریکارڈ کے خلاف لکھی ہے؟مدعی قاری سلام نے اپنے بیانات بدلے، قاری سلام کہتا ہے افضل نے اسے اطلاع دی افضل حلف اٹھا کر کہتا ہے کہ قاری ہ اس کے گھر آئے، ہم کچھ نہیں کہتے سب مذہبی لوگ ہیں،قاری صاحب کہتے ہیں کہ 5 دن غور کرتے رہے لیکن فوجداری قانون میں ایک گھنٹے کی تاخیر سے شکوک و شبہات شروع ہوجاتے ہیں،
درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ مدعیوں کی جانب سے آسیہ کو کسی بدنیتی کی وجہ سے ملوث نہیں کیا گیا، چیف جسٹس نے کہاکہ جن خواتین نے ابتدائی الزام لگایا وہ قاری صاحب کی بیگم سے قران پڑھتی ہیں، قاری صاحب ایف آئی آر درج کروانے کے لیے 5 دن کیوں سوچتے رہے،5 دن میں قاری صاحب نے ایک وکیل سے درخواست لکھوائی لیکن قاری صاحب کہتے ہیں کہ وہ وکیل کو نہیں جانتے،
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ کہیں وہ وکیل صاحب آپ ہی تو نہیں تھے، چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ قاری سلام کے بیان کے مطابق گاو¿ں والے اکھٹے ہوئے پھر ایف آئی آر درج ہوئی،گواہوں کے بیانات کی حیثیت بھی تو دیکھیں، قاری سلام نے حلف پر جو بیان دیا وہ پہلے بیان سے مختلف تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا مدعی ہے جس کو یہ نہیں پتہ کہ اس کی درخواست کس نے لکھی؟ پھر ان کو کیسے پتا چلا کہ یہ الفاظ کہے گئے،
پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا اسلام کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں، کیا اس طرح کے گواہ ہوتے ہیں سب گواہان کے بیانات میں واضح تضادات ہیں، اور آپ سارا پاکستان بلاک کردیتے ہیں کہ ہماری بات کیوں نہیں مانی گئی؟الزام لگاتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں کہ بری کردیا،اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں کیس کیا بنایا ہے؟
یاد رہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں جون 2009 کو ایک واقع پیش آیا جس میں کھیتوں میں کام کرتے ہوئے دو مسلمان خواتین نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا تھا۔
آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے الزام میں 2010 میں لاہور کی ماتحت عدالت نے سزائے موت سنائی تھی، لاہور ہائی کورٹ نے بھی آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کردی تھی جس کے بعد ملزمہ نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی تھی۔ گزشتہ سال 31 اکتوبرکوسپریم کورٹ نے سزا کالعدم قراردے کرآسیہ بی بی کورہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔