آئی ایس آئی کیلئے قانون ہے مگر
Reading Time: 5 minutesسپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے مقدمے میں فیصلہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اٹارنی جنرل نے آئی ایس آئی کے کام/ مینڈیٹ کی دستاویز سربہمر لفافے میں عدالت کو دی ۔ اس سے آئی آیس آئی کے کام/مینڈیٹ کا پتہ چلا تاہم اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ اس کو خفیہ رکھا جائے ۔
جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے نومبر 2017 کے فیض آباد دھرنے پر 22 نومبر 2018 کو سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج چھ فروری کو جاری کیا گیا ہے ۔
فیصلے کے صفحہ 31 کا پیراگراف 42 اس معاملے کے ذکر سے شروع ہوتا ہے کہ فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے ایک رپورٹ جمع کرائی جس میں فیض آباد پر دھرنا دینے والی جماعت تحریک لبیک کےرہنماؤن کے ذرائع آمدن، کام کی جگہ اور رہائش کے پتے اور ان کی تنظیم کی فنڈنگ کا نہ بتایا گیا ۔ اس پر پوچھا گیا کہ کیا یہ انکم ٹیکس دیتے ہیں اور ان کے بینک اکاؤنٹس ہیں؟
عدالت کے پوچھنے پر آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ یہ ان کے مینڈیٹ میں نہیں اس لئے ان سوالات کے جواب نہیں دیے جا سکتے ۔
اس کے بعد عدالت نے اٹارنی جنرل سے ان قوانین اور قواعد و ضوابط کے بارے میں پوچھا جس کے تحت آئی ایس ائی کام کرتی اور اس کا مینڈیٹ ہے ۔
فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بند لفافے میں تفصیل دی مگر اس دستاویز کو خفیہ رکھنے کی کوئی وجہ نہ بتا سکے صرف یہ کہا کہ دیگر ممالک میں بھی خفیہ ادارے اسی طرح کام کرتے ہیں مگر کوئی مثال پیش نہ کر سکے ۔ اس لئے عدالت نے یہ معلوم کرنے کیلئے کہ کیا دوسرے ممالک بھی اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مینڈیٹ/ کام کی حدود کے بارے میں دستاویز خفیہ رکھتے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے اس بحث پر پیراگراف 43 میں لکھا ہے کہ برطانیہ، امریکا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور ناروے کی مثالیں دی ہیں اور ان ممالک کے قوانین کے حوالے بھی فیصلے کا حصہ بنائے ہیں ۔ عدالت نے لکھا ہے کہ حکومت نے کیس کے اس رخ کو جس طرح لیا ہے وہ مایوس کن ہے، ایک مسئلہ سے صرف نظر کرنے سے وہ ختم نہیں ہو جاتا ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام خفیہ اداروں بشمول (آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی) اور پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں (چینلز اور اخبارات) کی نشرواشاعت اور ترسیل میں مداخلت کا اختیار ہے ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ نجی ٹی وی چینلز جن میں ڈان اور جیو شامل ہیں اور جو کہ لائسنس یافتہ چینلز ہیں، کی نشریات کو چھاؤنی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے علاقوں میں بند کر دیا گیا لیکن پیمرا نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی ۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت یا کوئی بھی خفیہ ادارہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتا ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اصغر خان کیس فیصلے کے بعد مسلح افواج اور آئی ایس آئی کی جانب سے سیاسی مداخلت کا معاملہ رک جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عدالت نے لکھا ہے کہ وردی میں ملبوس اہلکاروں نے فیض آباد دھرنے کے شرکا میں رقوم تقسیم کیں اور یہ کوئی اچھا منظر نہیں ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ نجی ٹی وی چینلز جن میں ڈان اور جیو شامل ہیں اور جو کہ لائسنس یافتہ چینلز ہیں، کی نشریات کو چھاؤنی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے علاقوں میں بند کر دیا گیا لیکن پیمرا نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔
یاد رہے کہ تحریکِ لبیک نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے متنازع ترمیم کے خلاف نومبر 2017 میں دھرنا دیا تھا جس کا اختتام وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد ہوا تھا ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو کسی دوسرے کے خلاف فتوی دیتا ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچے یا اس کی راہ میں رکاوٹ آئے، اس کے خلاف انسداد دہشت گردی یا سائبر کرائم کے قوانین کے تحت مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔
فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن یہ حق اس وقت تک تسلیم کیا جانا چاہیے جب تک اس سے دوسروں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔
عدالت نے آرمی چیف، اور بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا ہے کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا آئین مسلح افواج کے ارکان کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان وزارتِ دفاع اور افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ان افراد کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے ۔
فیصلے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس سیاسی بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ تاریخ ثابت کرے گی کہ سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات غیر جانبدارانہ تھے ۔
یاد رہے کہ متعدد سیاسی جماعتوں نے گذشتہ برس ہونے والے عام انتخابات کے شفاف ہونے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلح افواج، فوج کے خفیہ اداروں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں کام کرنے والے افسران اور اہلکاروں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کر رہی ہیں۔
عدالت نے آئی ایس آئی کی اس رپورٹ کو بھی اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے جو وزارت دفاع کے حکام نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض سیاسی شخصیات نے بھی فیض آباد دھرنے کی حمایت کی اور ان شخصیات میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ضیا کے اعجاز الحق، پیپلز پارٹی کے شیخ حمید اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کا علما ونگ بھی شامل ہے۔
اس عدالتی فیصلے میں مقامی نجی ٹی وی چینل 92 کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس چینل کے ذمہ داران فیض آباد دھرنے کے شرکا کو کھانا فراہم کرتے تھے۔ فیصلے میں پیمرا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ اُنھوں نے مذکورہ چینل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
عدالت کا کہنا تھا ’ہر شخص کو سیاسی جماعت بنانے کا حق ہے لیکن ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو اپنے ذرائع آمدن کے بارے میں بتائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ ایسی جماعتوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔‘
عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی حکم دیا کہ نفرت، شدت پسندی اور نفرت کو ہوا دینے والوں کی نگرانی کریں اور قصور واروں کو قانون کے مطابق سزا دیں۔
عدالت نے خفیہ اداروں سے بھی کہا کہ وہ ایسے ان افراد کی نگرانی کریں جو سکیورٹی ہاتھ میں لے کر لوگوں کو اکساتے ہیں۔
عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ ایسی نشریات اداروں کے خلاف بھی پیمرا کارروائی کرے جو کسی بھی حملے کی ترغیب دینے والاپیغام نشر کرے۔
یہ دھرنا انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے معاملے پر متنازع ترمیم کے خلاف دیا گیا تھا اور تقریباً تین ہفتے تک جاری رہا تھا جس سے دارالحکومت میں نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا تھا۔
حکومت نے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور عدالتِ عالیہ کے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد مظاہرین کے خلاف آپریشن بھی کیا تھا، جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے تاہم دھرنا جاری رہا تھا۔