سگی اولاد کے قاتل والدین کو سزا
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے دو بیٹوں کو قتل کرنے والے مجرم احمد علی کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کرتے ہوئے ماتحت عدالتوں کا فیصلہ برقرار رکھا ہے ۔ احمد علی نے پاکپتن کے علاقے ملکہ ہانس میں اپنے دو بیٹوں کو قتل کیا تھا ۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بینچ نے اپیل کی سماعت کی۔
عدالت نے احمد علی کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ۔ عدالت نے اپنے حکم میں لکھا کہ مجرم احمد علی نے اپنے دو بیٹوں فراز اور وقاص کو کھیتوں میں چھری کے وار کر کے قتل کیا۔
سزا کے خلاف اپیل کرنے والے مجرم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمے میں احمد علی کی بیٹیوں کو بطور گواہ شامل نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہماری روایات اور ثقافت کی وجہ سے ہوا، خواتین کو ان معاملات سے دور رکھا جاتا ہے ۔
وکیل نے کہا کہ بیٹیاں بھی سگی اولاد تھیں ان کو گواہ نہ بنایا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سگی اولاد کو قتل کرنا جائز ہے؟ اس مقدمے میں موقع واردات سے فرار ہونے والا تیسرا بیٹا گواہ ہے، بتائیں بیٹا اپنے سگے باپ کے خلاف جھوٹی گواہی کیوں دے گا؟ ۔
عدالت نے اپنے آرڈر میں لکھا کہ قتل کا محرک مجرم کی دوسری شادی کا معاملہ تھا۔ مجرم نے دوسری شادی کی تھی جس کی وجہ سے اس کے پہلی بیوی کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ تھے ۔
عدالت نے حکم نامے میں لکھا کہ مجرم نے دو معصوم بچوں کو بغیر کسی جرم قتل کیا۔ بچے انتہائی بے دردی سے قتل کئے گئے جو کسی طور قابل معافی نہیں ۔
عدالت کے مطابق قتل کا عینی گواہ مجرم کا تیسرا بیٹا ہے جو جائے وقوعہ سے بھاگ گیا تھا ۔ عدالت آرڈر کے مطابق اس مقدمے میں 12/13 سالہ لڑکے کی گواہی کسی طور مسترد نہیں کی جا سکتی۔
خیال رہے کہ دہرے قتل کا یہ واقعہ فروری 2009 میں پاکپتن کے علاقے ملکہ ہانس میں پیش آیا تھا جس پر ٹرائل عدالت نے مجرم کو دو بار سزائے موت سنائی تھی ۔ لاہور ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا ۔
ایک الگ مقدمے میں سپریم کورٹ نے فیصل آباد میں دو بچوں کو جلا کر مارنے پر سزائے موت کا سامنا کرنے والے محمد عثمان کی ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف اپیل خارج کر دی ہے ۔
چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مجرم محمد عثمان کی سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فائل اور فیصلے کے مطابق معصوم بچوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کر کے جلایا گیا ۔
محمد عثمان کے وکیل نے کہا کہ بچوں کو جلاتے ہوئے کسی گواہ نے نہیں دیکھا، وجہ عناد بھی سامنے نہیں لائی گئی ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے میں بچوں کی ماں نے گواہی دی ہے اس کو مسترد نہیں کرسکتے، قتل کا محرک گھریلو تنازعہ تھا ۔
واقعہ 2011 میں تھانہ ٹھیکری والا فیصل آباد کی حدود میں پیش آیا تھا ۔ قتل کیے گئے بچے محمد شریف کی عمر 3 سال جبکہ رابعہ کی عمر 4 سال تھی ۔
عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپیل مسترد کردی ۔