کالم

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں۔ یونس ریاض

مارچ 12, 2019 4 min

بڑے لوگوں کی سنہری یادیں۔ یونس ریاض

Reading Time: 4 minutes

تحریر: عارف الحق عارف

یونس ریاض کراچی کے ان نامور صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں,جنہوں نے اس پیشے کو شعوری طو پر اختیار کیا اور نہائت دیانت اور محنت کے ساتھ اس میں اعلی مقام و مرتبے پر فائز ہوئے۔ روزنامہ جنگ میں ایڈیٹر کے منصب پر پہنچنا کسی بھی صحافی کے لئے ایک بڑا خواب اور سب سے بڑا اعزاز تصور کیا جاتا ہے۔ اور کتنے اخبار نویس اس کے لئے بڑی محنت کرتے ہیں لیکن کم ہی یہ منصب حاصل کر پاتے ہیں۔ یونس ریاض وہ خوش قسمت صحافی تھے جو اس مقام تک پہچنے میں کامیاب ہوئے۔ اور ان بڑے صحافیوں کی صف میں شامل ہو گئے جن کو میں جنگ کے صحافیوں کی کہکشاں کے روشن ستارے کہتا ہوں اور جن کو جنگ کے بانی محترم میر خلیل الرحمن کی نگاہ صحافی شناس نے چن چن ایک جگہ جمع کیا تھا۔

‎یونس ریاض سے میری پہلی ملاقات تقریباً” 52 سال قبل جنگ کے دفتر میں اسی دن ہوگئی تھی جب مجھے بھی پاکستان کے اس بڑے اخبار سے وابستہ ہونے کا اعزاز حاصل ہواتھا۔ وہ اس وقت نائٹ شفٹ کے سینیئر سب ایڈیٹر تھے۔ جنگ کے ایڈیٹر یوسف صدیقی ننے مجھے ڈے شفٹ میں ظفر رضوی اور استاد نازش حیدری کے حوالے کیا تھا لیکن دفتر کا ماحول ایسا دوستانہ تھا کہ شام تک سب سے ہی دعا سلام اور تعارف حاصل ہو گیا تھا۔اس سے میرا وہ خوف بھی دور ہو گیا تھا جو مجھ پر ادارے میں آنے سے قبل سوار تھا کہ میں جنگ میں کام کرنے والے بڑے بڑے صحافیوں اور دانشوروں میں کیسے وقت گزاروں گا۔ مجھے یاد ہے یونس ریاض نے مجھے ادارے میں شامل ہونے کی مبارک باد دی اور بڑی حوصلہ افزائی بھی کی تھی ان سے اس وقت دوستی کا جو تعلق قائم ہوا وہ جنگ سے ان کی علاحدگی کے بعد بھی پہلے کی طرح قائم رہا۔اور اس میں کبھی فرق پیدا نہیں ہوا

‎میں 2012 میں مستقل طور پر امریکہ آگیا تو بھی فون پر رابطہ رکھا اور خیریت معلوم کرتارہا۔ میں آخری بار پاکستان ستمبر 2016 میں گیا تو کراچی بھی جانے کا موقع ملا۔ ان سے ملنے ان کے گھر بھی گیا۔ وہ بے ہوشی کی حالت میں تھے۔ان کے بیٹے علی سے پوچھا ایسا کب ہوا تو اس نے بتایا “ چھ سات ماہ سے اسی حال میں ہیں ،کسی کو پہچانتے نہیں ہیں۔ کبھی کبھی ہوش میں آتے ہیں ہم سب کو دیکھتے ہیں لیکن بات نہیں کر پاتے ان کا علاج جاری ہے “ ہنستے مسکراتے یونس بھائی کو اس حال میں دیکھ کر بڑا صدمہ ہوا اور انسان کی بے ثباتی کا منظر سامنے آگیا۔ پھر میں واپس امریکہ آگیا اور وقفے وقفے سے خیریت معلوم کرتا رہا اور اپنے دفتر کے ساتھی افسر عمران بھائی بھی ان کی خیریت معلوم کرتے تو مجھے بھی اس کی اطلاع کرتے

‎یونس ریاض اپنے بہن بھائیوں کا بڑا خیال رکھتے تھے مجھے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب 1974-75 میں ان کے ایک بہنوئی اسحاق کشتی والے کا شادی کے چند سال بعد شہید ملت روڈ پر ٹریفک کے ایک حادثے میں انتقال ہو گیا۔بہن جوانی ہی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ان کے بچے چھوٹے تھے۔ مرحوم کا ناظم آباد نمبر چار میں لیبل بنانے کا کارخانہ تھا۔یونس ریاض نے فوری طور پر اس کارخانے کا سارا انتظام سنبھال لیا۔ وہ رات کو جنگ کے دفتر میں کام کرتے،دو تین بجے گھر جاتے اور پھر اگلے دن دس بجے اس کارخانے کے کام کی نگرانی کرنے ناظم آباد پہنچ جاتے۔یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔لیکن یونس ریاض نے بڑی پاپندی کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھایا۔ اس زمانے میں میری رہائش بھی ناظم آباد نمبر چار میں راشد منہاس شہید کے بنگلے میں تھی۔ جب مجھے یونس ریاض کے اس کارخانے میں ہر روز آنے کا علم ہوا تو ہماری وہاں بھی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ یونس ریاض نے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جب تک ان کا بھانجا کارخانے کا انتظام سنبھالنے کے قابل نہیں ہو گیا۔ مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ یونس ریاض نے اس کارخانے سے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھایا۔بلکہ میرے پوچھنے پر یہی کہا کہ یہ کام میں اپنا فرض سمجھ کر کر رہا ہوں جس کا مقصد بہن اور بھانجوں کے ساتھ ایک بھائی کا تعاون ہے۔میں اس کاروبار سے ایک روپے کا بھی روادار نہیں ہوں۔

یونس ریاض

یونس ریاض ایک اچھے اور محبت کرنے والے باپ تھے اور اخباری اور دوسری مصروفیات کے باوجود اپنے بچوں اور بھابھی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے اور ان کی دل جوئی کا خیال رکھتے۔ ان کی چار بیٹیاں اور بڑے وقفے اور دعاؤں کے بعد بیٹا پیدا ہوا تو اک کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ بڑی تین بیٹیوں کی شادیاں بھی دہلی سوداگراں کے تجارتی گھرانوں میں کیں تو سب سے چھوٹی بیٹی خود کو تنہا محسوس کرنے لگی۔ انہیں احساس ہوا تو وہ اس کو مختلف طریقوں سے خوش رکھتے۔انہوں نے تمام بچوں کو اچھے اسکولوں اور کالجوں تعلیم دلائی اور گھریلو تربیت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اس کی وجہ سے اب وہ سب کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔

جاری ہے۔

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے عارف الحق عارف نے 1967 میں روزنامہ جنگ کراچی سے صحافت کا آغاز کیا،جہاں 2002 تک وابستہ رہے،اسی سال جیو ٹی وی سے وابستہ ہوئے جہاں بطور ڈائریکٹر 18 سال سے زائد عرصہ گزارا، عارف الحق عارف کی صحافت سے 52 سالہ وابستگی کا یہ سفر بڑا دلچسپ ہے،پاکستان 24 میں “ بڑے لوگوں کی سنہری یادیں “ کے اس تحریری سلسلے میں آپ کو نامور لوگوں کی متاثر کن کہانیاں پڑھنے کو ملیں گی۔امید ہے قارئین کے لیے یہ سلسلہ دلچسپ ہوگا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے