لوگوں کو اٹھانے والی گاڑیوں کے نمبر سیف سٹی کے کیمروں میں کیوں نہیں آتے؟
Reading Time: < 1 minuteپاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے تھانہ لوہی بھیر کی حدود سے شہری سلمان فاروق کے لاپتہ ہونے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈی آئی جی سیف سٹی پراجیکٹ کوآئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت طلب کر لیا ہے۔
عدالت نے ہدایت کی ہے کہ وزارت داخلہ کا جوائنٹ سیکرٹری سطح کا افسر آئندہ سماعت پر تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔
دوران سماعت عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ سیف سٹی پراجیکٹ پر ساڑھے سات ارب روپے لاگت آئی، یہ ہمارے کس کام کا ہے؟ عدالت کا استفسار
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ سیف سٹی پراجیکٹ کے کیمروں میں گاڑیوں کے نمبر ہی نظر نہیں آرہے؟ خاص طور پر جو گاڑیاں لوگوں کو اٹھاتی ہیں ان کے نمبر ہی کیمرے میں نہیں آتے۔
پولیس افسر نے عدالت کو بتایا کہ گاڑی کی نمبر پلیٹ نہیں تھی اس لیے نمبر نظر نہیں آیا۔ جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ تو پھر پولیس کیا کررہی ہے؟ یہ ناکے کس لیے ہیں؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کہیں پولیس یونیفارم تو کبھی پولیس کی گاڑیوں میں لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ اسٹنٹ اٹارنی جنرل اور ایس ایچ او سیکرٹری دفاع کو کیس سے متعلق آگاہ کریں۔
وکیل انعام الرحیم درخواست گزارپروفیسر شریف کی جانب سے پیش ہوئے۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور دیگر فریقین سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 10 جنوری تک ملتوی کردی۔
آئی ایس آئی اور ایم آئی کی جانب سے کوئی پیش نہ ہوا، عدالت نے دوبارہ نوٹس جاری کر دیے۔
اسلام آباد کے شہری پروفیسر شریف کے بیٹے سلمان فاروق تھانہ لوہی بھیر کی حدود سے لاپتہ ہوگئے تھے۔