کالم

پاکستان کی فوجی قیادت نے کیا سیکھا؟

مارچ 2, 2020 2 min

پاکستان کی فوجی قیادت نے کیا سیکھا؟

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی معلوم تاریخ میں بھٹو وہ واحد سول شخص تھے جن کو کچھ دیر کے لئے خارجہ پالیسی چلانے کا موقع ملا اور یہ بھی ایک محدود عرصہ تھا،ضیا دور تو بہرکیف تھا ہے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا دور لیکن اس کے بعد کسی سویلین کو خارجہ پالیسی میں بقدر اشک بلبل بھی حصہ نہیں مل سکا، نواز شریف کے تینوں اور بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں سول ملٹری تعلقات میں سب سے بڑی ٹیڑھ ان کی خارجہ پالیسی میں مداخلت کی وجہ سے ہی آئی اور ان کو مستقل دباوُ میں رکھنے کے لئے مودی کا یار،سکھوں کی لسٹیں دینے کا الزام،میمو گیٹ سکینڈل،ڈان لیکس جیسے سکینڈل استعمال کئے گئے اور دونوں منتخب وزرائے آعظم کو سیکیورٹی رسک بھی قرار دیا گیا۔
گویا یہ ایک کھلا راز ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کُلی طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ہی تشکیل کردہ ہے اور اس کی ناکامی یا کامیابی کا سہرا بھی انہی کے سر باندھا جانا چاہئیے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کتنی کامیاب یا ناکام ہے کو جانچنے کے لئے ماضی قریب میں کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد،پاکستان کے پاسپورٹ کی دنیا میں قدر و قیمت اور پاکستان کے بارے میں عمومی تاثر کو جان لینا کافی ہے۔
اس ضمن میں اتنی بڑی بڑی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں ہے کہ الامان۔

ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی رول کا شدید ناقد ہونے کے باوجود اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ قیادت کے دور میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ اگر وہ دنیا کے معروف کو نہیں اپنائیں گے تو دنیا پاکستان کے ساتھ ایک اچھوت کی طرح ہی سلوک کرے گی،اس سے پہلے سابقہ قیادت کے دور میں بھی اگرچہ یہ بات باور کی جاچکی تھی کہ ہماری خارجہ پالیسی نے ہمیں تنہا کردیا ہے اور دنیا ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے لیکن انہوں نے اس تاثر کو دور کرنے کے لئے جو اقدامات اٹھائے وہ صرف درشنی تھے جیسے فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے آئی ایس پی آر کی سینماوُں میں سرمایہ کاری،فلم انڈسٹری اور ڈرامہ انڈسٹری میں سرمایہ کاری وغیرہ لیکن یہ کافی ثابت نہیں ہوا۔

داخلی محاذ پر موجودہ قیادت کے دور میں پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت زیادہ واضح اور شدید ہوتی گئی، اس بار سیاستدانوں نے بھی اس مداخلت کو عوامی اجتماعات کا موضوع بنا دیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کا ایک متنازعہ سیاسی طاقت کے طور پر تشخص زیادہ واضح کر دیا۔


خارجہ محاذ پر البتہ اپنے تشخص کو ایک جنگجو،وحشی اور جاہل ملک سے کافی حد تک بدلنے میں کامیاب رہی،یہی وجہ ہے کہ آسیہ بی بی کی عدالتوں سے رہائی ہوئی،کرتار پور بارڈر کھولا گیا،حافظ سعید کو سزا سنائی گئی،ایف اے ٹی ایف کے قوانین کی ترویج کی گئی اور اب افغان امریکا امن معاہدے میں کردار ادا کیا گیا۔

ٹرمپ کا بھارت میں پاکستان کی تعریف کرنا بذات خود اس بات کی نشانی ہے کہ آہستہ آہستہ امریکا نے پاکستان کو ایک دھوکے باز ملک کی بجائے سنجیدگی سے اپنے وعدوں پر عمل کرنے والا ذمہ دار ملک تسلیم کرلیا ہے۔

لیکن کیا یہ سب کچھ کافی رہے گا؟ شاید اس کا جواب نفی میں ہوگا۔
پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ روا سلوک، مولوی خادم جیسے جتھوں کو ان کی کھال میں رکھنا، سیاسی معاملات سے بتدریج پسپائی، جمہوری اداروں کی مضبوطی،نئے الیکشن میں عوام کو بلا روک ٹوک اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع دینا، نئی قیادت کو اہم فیصلوں کا اختیار دینا دراصل ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے وہ امتحان ہیں جن کا بظاہر انہیں ادراک بھی حاصل نہیں ورنہ اس کی کوئی تیاری بھی نظر آتی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے