ماروی، خلیل، فیمنزم،لبرلازم،عورت مارچ!
Reading Time: 10 minutesعصمت حمید ۔ لندن
ماروی نے بدتمیزی کی خلیل نے ڈبل بدتمیزی سے جواب دیا۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے سو کالڈ فیمنسٹس نے خلیل پر گالیوں کی بوچھاڑ کر کے یوتھیوں کو بھی مات دے دی، ماروی نے ایموشنل انٹیلجنس کو بروے کار لاتے ہوے پرووکیشن کا بھرپور استعمال کیا جس کا مظاہرہ وہ پہلے بھی کئی بار بڑی کامیابی سے کر چکی ہے، پرووکیشن میں اگلے کو ڈلیبریٹلی اس طرح چڑایا جاتا ہے کہ وہ غصے میں آ کر غلطی کر بیٹھے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایموشنل انٹیلیجنس کو سکول لیول پر سکھایا جاتا ہے تاکہ کوئی اپ کو پرووک نہ کر سکے، جبکہ پاکستان میں کسی بھی مرد و زن کو پرووک کرنا بائیں ہاتھ کا کام ہے کیونکہ شخصیت سازی میں اس طرف کبھی کوئی دھیان نہیں دیا جاتا، اور ماروی کو اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے اسی لیے وہ اپنی بات میں خاص قسم کی پنچ لائنز کا استعمال کرتی ہیں جو شخصی معاشرتی اور مذہبی طور پر بہت اوفینسو ہوتی ہیں اور پھر جب اگلے کی بولنے کی باری ہوتی ہے تو مسلسل ان پنچ لائنز کو دہرا کر کے پروووک کرتی ہے اور یہ اس کا طریقہ واردات ہے۔ ٹوئٹر لائن پر کسی نے ان سے پوچھا کہ تم نے خلیل کو پرووک کیا تھا جس کے جواب میں ماروی بڑے دھڑلے سے کہتی ہیں کہ پرووکیشن اس کا مڈل نیم ہے، جبکہ ترقی یافتہ معاشروں میں یہ انتہائی گھٹیا حرکت تصور کی جاتی ہے۔
ماروی اور خلیل کی لڑائی دو انسانوں کی لڑائی تھی جس میں دونوں غلطی پر تھے اور دونوں کو اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے کی ضرورت تھی، اور جو لوگ اس کو ایک مرد اور عورت کی لڑائی سمجھتے ہیں ان کو فیمنزم کی کلاسز لینے کی اشد ضرورت ہے۔
اب آتے ہیں اپنے اپ کو لبرل اور فمنسٹ کہنے والے ان دو لائنر سوشل میڈیائی طرم خانوں کی جانب، جنہوں نے خلیل پر گالیوں کا طوفان بدتمیزی مچا کر یوتھویوں کو بھی مات دے دی ہے، ان میں اکثریت ان کی ہے جو خود کوئی بھی اختلاف برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور پرووکیشن کی تو بات ہی نہ کریں اپ ان میں سے کسی کے ان باکس میں جا کر ان کو تھوڑا سا پرووک کر کے دیکھیں یہ آپ کی ماں بہن ایک کر دیں گے، جی وہی ماں بہن جن کے حق میں یہ پوسٹیں لگاتے نہیں تھک رہے، ایک فیمنسٹ تو ایسا بھی نظر سے گزرا جو کچھ عرصہ پہلے تک فیسبک لائیو پر اپنے کسی مخالف کو انتہائی گندی ماں بہن کی گالیاں دیتا پایا گیا تھا وہ بھی خلیل پر سیخ پا نظر آیا، اور ان میں سے اکثر فیمنسٹ ایسے ہیں کہ ان کے عورتوں کے بارے آف دی ریکارڈ گفتگو سن کر بندہ دنگ رہ جائے، جی بلکل عامر لیاقت کی طرح۔
اور یہ فیمنسٹ وہ ہیں جو دوسروں کی بہن بیٹیوں کی ٹائم لائن پر بھاشن دیتے ہر وقت نظر آتے ہیں لیکن کبھی آپ نے ان کی بیوی، بہن یا بیٹی کو نہیں دیکھا ہو گا، ایسے لگتا ہے کہ ان فیس بکی لبرل اور فیمنسٹ کے اپنے ہاں عورتیں نہیں ہوتیں۔ کئی فیمنسٹ تو ایسے ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ تو خوب نظر آتے ہیں لیکن بیوی ہمیشہ غائب ہوتی ہے، یہ کیسا فیمنزم ہے بھائیوں کہ جس میں تم اپنی بیوی کی تصویر لگانا بھی حرام سمجھتے ہو اور باتیں کرتے ہو میرا جسم میری مرضی کی، اس نیک کام کا آغاز اپنے گھروں سے شروع کرو تاکہ پتا تو چلے کہ کتنا دم ہے تمہارے اس پاکستانی فیمنزم کے سٹانس میں، کچھ ہمت کرو اور عورت مارچ کے دن اپنے اپنے فیس بک پیج پر اپنی بیوی یا بہن کے ساتھ میرا جسم میری مرضی کے پلے کارڈ کے ساتھ ایک تصویر لگاؤ تاکہ اس نعرے کی جسٹیفیکشن تو ہو سکے۔
فیمنزم، لبرلزم، مساجنی جیسے الفاظ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کافی حد تک نئے ہیں، ہمارے ہاں ان الفاظ کا تھوک کے حساب سے استعمال اور پرچار بھی سطحی سوچ کے ساتھ کیا جا رہا ہے، پاکستانیوں کو جتنی سمجھ پرووکیشن کی ہے اتنی ہی ان کی سمجھ فیمنزم اور لبرلازم کی ہے، اسی لیے تو ماروی نے اپنا مڈل نیم پرووکیشن رکھا ہوا ہے۔ اسے پتا ہے کہ اس جاہل قوم کو پرووکیشن کی سنگینی کی سمجھ آنے میں ابھی کئی دہائیاں چاہئیں، اپنے اپ کو بہت بڑا صحافی اور فیمنسٹ سمجھنے والا منصور علی بھی پرووکیشن کو عام سی بات سمجھتا ہے، الیکٹرانک کی دکان چلاتے چلاتے صحافی بن جانے والے کی سمجھ ہو بھی کتنی سکتی ہے، ابھی غریدہ فاروقی کا ایک کلپ نظر سے گزرا جس میں بڑھ چڑھ کر عورتوں کے حقوق کی بات کر رہی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے اس نے ایک کم عمر کام کرنے والی لڑکی کو اپنے گھر میں زبردستی رکھا ہوا تھا جس کو بڑی مشکل سے عدالت کے زریعے بازیاب کروایا گیا تھا، یہ ہے وہ عمومی حالت اس ملک کے الیکٹرانک اور سوشل میڈیای فیمنسٹس کی، میں سمجھتا تھا کہ صرف مذہبی اور جاہل لوگ ہی لبرلازم کو مادر پدر آزادی، شراب و شباب سمجھتے ہیں لیکن وہ اس کو صحیح سمجھتے ہیں کیوں کہ سوشل میڈیا پر بیٹھے سو کالڈ لبرل اسی قسم کے لبرل ازم کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔
شراب کی بوتلوں کے ساتھ تصویریں لگانا اور کہنا کہ میں لبرل ہوں، مزہب کو گالی دینا اور کہنا کہ میں لبرل ہوں، اپنی عورت کو سات پردوں میں چھپا کے رکھنا اور دوسرے کی عورت کو کہنا کہ جو دل میں اے کرو، یہ کب سے لبرلزم ہو گیا۔ اور کس معاشرے میں شراب پینا لبرلزم کہلاتا ہے، خالی خانہ کعبہ کی تصویریں لگا کر کہنا کہ دیکھو خدا کچھ نہیں کر سکتا، یہ کہاں کا لبرلازم ہے، لبرلازم تو جیو اور جینے دو کو کہتے ہیں، مجھے بیس سال ہو گئے ہیں ویسٹ میں رہتے ہوے میں نے تو کبھی بھی شراب پینے والا، کسی کے کلچر اور مزہب کو برا کہنے ولا لبرل نہی دیکھا، ایسے عجوبے لبرل صرف پاکستان میں ہی پاے جاتے ہیں، اور بدقسمتی سے ایسے ہی پاے جاتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک یہی لبرل ازم ہے۔
ماروی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولتی ہے اس لیے وہ کسی کو بھی گالی دے سکتی ہے لیکن اگر اس کو جواب دیا تو تمہاری ماں بہن ایک کر دیں گے، حمید ہارون کا اخبار اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لکھتا ہے اس لیے وہ کسی مرد کو بھی ریپ کر دے تو کوئی مسئلہ نہیں، خرابی اسی مرد میں ہے جس نے الزام لگایا ہے، اس طرح تو وکیل اپنے وکیل بھائیوں کے حق میں جو کرتے ہیں صحیح کرتے ہیں، ڈاکٹر جو کرتے ہیں درست کرتے ہیں، صحافی جو کرتے ہیں صحیح کرتے ہیں، مولوی جو مدرسے میں ہونے والے ریپ کیسز میں اپنے پیٹی بھائیوں کا ساتھ دیتے ہیں حق پر کرتے ہیں، فوج اور پولیس جو اپنے پیٹی بھائیوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے سہی ہے؟
فیمنزم کیا ہے آسان ترین لفظوں میں اس کا مطلب ہے برابری، اور ہر سطح کی برابری۔ دونوں جینڈرز انسان ہیں دونوں وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو دوسرا کر سکتا ہے، اگر فیمنزم کی صحیح مثال دیکھنی ہو تو مغرب میں آکر دیکھو، صرف فیمنزم کا لفظ سن کر نہیں۔
20 سال سے میں ویسٹ میں رہ رہا ہوں اور ویسٹ میں رہنے کا مطلب ہے کہ یہاں کے معاشرے میں رہا ہوں کسی پاکستانی کمیونیٹی میں نہیں، ان 20 سالوں میں صرف تین یا چار بار لندن، برمنگھم، اور مانچسٹر کے ان پاکستانی علاقوں میں گیا ہوں گا وہ بھی صرف کسی دوست کے ساتھ کھانا کھانے، 20 سال یہاں کی وائٹ ورکنگ مڈل کلاس میں گزارے ہیں۔
یہاں ویسٹ میں برابری اتنہائی بروٹل انداز میں موجود ہے، اور ہر انسان فطری طور پر فیمنسٹ ہے، یہاں کوئی ماں، بہن، بیوی بیٹی کا چکر نہیں ہے، نہ ہی کسی باپ، بھائی، خاوند یا بیٹے کا چکر ہے، بوجھ اپنا اپنا، صرف رشتے کی بنیاد پر گھر بٹھا کر کھلانے کا کوئی تصور نہیں ہے، یہاں تو نوکری گئی تو تعلق بھی چلا جاتا ہے، کوئی انسان دوسرے انسان کو ایک پینی بھی نہیں دیتا، یہاں کی عورت صبح کام پر نکلتی ہے اور شام کو گھر آتی ہے، دونوں گھر کا خرچہ برابر اٹھاتے ہیں اس سے قطع نظر کے کون زیادہ کما رہا ہے کون کم، ایک کھانا پکاتا ہے تو دوسرا برتن دھو دیتا ہے، اگر خاوند گارڈن صاف کرتا ہے تو بیوی گاڑی دھوتی ہے، گھر میں برابر کے خرچے کے بعد باقی کے پیسے ان کے اپنے اپنے ہوتے ہیں جو وہ جیسے چاہیں خرچ کریں، اور وہ اکثر اپنی کمائی ایک دوسرے کو بتاتے بھی نہیں، ہاں اگر دونوں میں سے صرف ایک کماتا جو کہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت تو پھر دوسرا گھر کو مکمل سنبھالتا ہے، اس میں کوئی اگر مگر نہیں ہوتا، گاڑی میں کسی عورت کے لیے سیٹ چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نہ ہی عورت اس کو قبول کرتی ہے، کیوں کہ وہ اپنے اپ کو برابر کا انسان سمجھتی ہے نہ ہی کوئی عورت کبھی کسی لائن کو توڑ کر آگے چلی جاتی ہے، کیوں کہ وہ اپنے آپ کو برابر کا انسان سمجھتی ہے، یہاں پر عورت سے زیادہ مرد فیمنسٹ ہے برابری کے معاملے میں وہ کسی بھی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں۔
2002 میں میں ایک ڈسٹریبوشن کمپنی میں ٹیم لیڈر تھا، 40 لڑکے لڑکیاں کام کرتے تھے، ایک بار ایک لڑکی کو پیلٹ موو کرنے میں مشکل ہو رہی تھی، میں نے دیکھا تو جا کر اس کی مدد کر دی، میرا گورا مینیجر دیکھ رہا تھا، مجھے کہنے لگا اس کی مدد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ اتنے ہی پیسے لیتی ہے جتنا دوسرے۔ مجھ سے پوچھا کہ یہ ٹیمپ ہے یا پرمننٹ، میں نے بتایا کہ ٹیمپ ہے تو بولا کہ اگر یہ کام نہیں کر سکتی تو اس کو فارغ کر دو۔
اسی طرح کئی سال پہلے میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سینئر انیلسٹ تھا اور اپنے باس کے ساتھ پریزینٹیشن دینے کے لیے آکسفورڈ میں کمپنی کے ہیڈ آفس جایا کرتا تھا۔ اپنے باس کے ساتھ اس کی گاڑی میں جاتا تھا ایک بار میں نے اس پوچھا کہ تمہارے پاس اتنی مہنگی گاڑی ہے جو تقریبا 40 ہزار پاؤنڈ کی ہو گی اور تمہاری بیوی کے پاس 500 پاؤنڈز والی تو کہنے لگا کہ میں اتنا کماتا ہوں اس لیے میرے پاس یہ والی ہے وہ کسی کیٹرنگ کچن میں اسسٹنٹ ہے اس لیے وہ اپنی حیثیت کے مطابق گاڑی رکھتی ہے۔ میں نے کہا کہ جو بھی ہے وہ تمہاری بیوی ہے تو مسکرا دیا۔ میں نے اسے کہا کہ اگر تم پاکستانی ہوتے تو یہ گاڑی تمہاری بیوی گاڑی چلا رہی ہوتی نہ کہ تم۔
اسی طرح ایک بار ہماری کمپنی کی سالانہ کانفرنس تھی اور ہم نے دو دن دوسرے شہر میں ہوٹل میں ٹھہرنا تھا تو میں اپنی گاڑی آفس میں ہی چھوڑ کر اپنی فیمیل کولیگ کے ساتھ اس کی گاڑی میں چلا گیا، تقریبن تین گھنٹے بعد جب ہم ہوٹل پہنچے تو میں نے اس کی مدد کے طور پر اس کا ایک بیگ اٹھا لیا کیوں کہ میرے پاس اپنا کوئی سامان نہیں تھا تو اس نے میرے اصرار کرنے کے باوجود مجھ سے وہ لے لیا، کہ نہیں یہ میرا ہے میں خود اٹھاؤں گی، دوسری طرف ابھی میں پاکستان گیا تو اسلام آباد ائرپورٹ پر جب اپنا سامان کولیکٹ کرنے کا ٹائم آیا تو ایک لڑکی میرے پاس ا کر کھڑی ہو گئی، مکمل برقع میں، جوان، لمبا قد اور صرف آنکھیں ہی نظر ا رہی تھی، پٹھان تھی شائد، مجھے انگلش میں کہتی ہے اپ پٹے سے میرا سامان اتار دیں گے میں نے کہا ہاں کوی مسلۂ نہیں، تم بتانا کون سا ہے اور میں اتار دوں گا، اس کے بعد اس نے بولنا شروع کیا اور چپ ہی نہ ہو، کبھی کہے میں واشنگٹن سے آ رہی ہوں وہیں رہتی ہوں، پھر کہے کہ پاکستانی لوگ اچھے نہیں ہوتے بہت گھورتے ہیں، ابھی بھی مجھے دیکھ رہے ہیں، جب اس نے یہ کہا تو میں نے ایک نظر اٹھا کے دیکھا تو کوی بھی اس کو نہی گھور رہا تھا، سب لوگ بے چارے سفر کی تھکان سے چور جلد از جلد اپنا سامان لے کر جانے کی جلدی میں تھے اور سب سے بڑی بات کہ وہ سر سے پاؤں تک برقعے میں تھی اس کو کسی نے دیکھ کر کیا لینا تھا، اسی دوران دو بار اس نے مجھ سے اپنا سامان کہ کر اتارنے کو کہا اور جب میں نے اتار دیا تو کہنے لگی یہ میرا نہیں ہے، اس دوران مجھے کہنے لگی کہ کیا تم سیف ہو، مجھے تو پہلے سمجھ نہیں آئی کہ اس نے کہا کیا ہے، میرے پوچھنے پر پھر وہی جملہ دھرایا، تو میں نے سوچا کہ یا تو یہ کوی مینٹل کیس ہے یا بن رہی ہے، ساتھ ہی میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا، ایک لڑکی دو منٹ پہلے مجھے کہ رہی ہے کہ لوگ اسے گھور رہے ہیں اور اب ایک انجان بندے کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا، پھر مجھے کہتی ہے کہ مجھے ٹرالی لا دو گے، میں نے کہا نہیں لوگ خود لا رہے ہیں تم بھی خود جا کے لے او، بڑی بے دلی سے کہنے لگی اوکے، یہ ہے پاکستانی عورت۔
برطانیہ واپسی پر مجھے جو سیٹ ملی اس میں میرے دائیں جانب ایک مڈل ایج فارنر عورت ا کر بیٹھ گئی، اس نے بڑے سلیقے سے اپنا سامان اوپر کیبن میں رکھا اور میرے دائیں جانب بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر میں ایک جوان پاکستانی عورت دوسری طرف سے بائیں طرف آئی اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگی بھائی یہ میرا بیگ اٹھا کر کیبن میں رکھ دو میں نے اس کو کوی جواب دیے بغیر آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کہا کے خود نہیں رکھ سکتی اور منہ دوسری طرف کر لیا، لیکن اس کو عادت پڑی ہوی تھی مردوں سے کام کروانے کی تو اس نے تھوڑی دور بیٹھے ایک مڈل ایج پاکستانی جو دیکھنے میں کافی نحیف لگ رہا تھا سے کہ کر اپنا وہ چھوٹا سا بیگ اوپر رکھوا لیا، یہ ہے پاکستانی عورت جو فیمنزم، فیمنزم تو کرتی ہے،لیکن خود سے اپنا کام کرتے اس کو موت پڑتی ہے۔
پاکستانی عورت ایک پرولجڈ عورت ہے، ماں، بہن، بیوی، بیٹی کے روپ میں انتہای پرولجڈ ہے، اس کو کوی فکر معاش نہی ہے، اس کو کسی لائن میں کھڑا نہی ہونا پڑتا، اس کے لیے مرد فورن سے پہلے اپنی نشست چھوڑ دیتا ہے، جہاں تک ڈسیین میکنگ کی بات ہے تو اس میں بھی ماں کے روپ میں یہ ہو تو مرد اس کے آگے چوں نہی کر سکتا، جہاں تک مکمل خود مختاری کی بات ہے تو وہ اس وقت تک نہی مل سکتی جب تک پاکستانی عورت اپنی پرولجڈ چھوڑنے پر تیار نہ ہوتی، جب تک معاشی طور پر خود کو انڈپینڈنٹ نہی کرتی، عورت کو تو ایک طرف رکھو ایک گھر میں تین بھائیوں میں سے کمانے والا چاہے چھوٹا ہی ہو ڈسیین میکر بن جاتا ہے گھر میں سب اس کی بات ماننا شروع کر دیتے ہیں۔
آج کی دنیا یہی ہے، اپنا کماو تو جو مرضی کرو، جیسے مرضی بیٹھو، اٹھو، سوو، کوئی کھانا گرم کروانے کی جرات بھی نہیں کرے گا، لیکن اگر مرد کے پیسوں پر عیاشی کرنی ہے تو پھر اس کا کھانا بھی گرم کرنا پڑے گا اور اس کا موزہ بھی ڈھونڈنا پڑے گا، آج کے دور میں مفت میں تو کوئی پانی بھی نہیں دیتا، پرنس ہیری سے بڑاپریولجڈ کون ہو سکتا ہے، گورے بھی جھک کر سلام کرتے، لوگوں کے ٹیکس پر عیاشی، برطانیہ جیسے معاشرے میں نوکر چاکر، بس شاہی اصولوں کی پاسداری کرنی تھی، ان کے کہنے پر چلنا تھا۔
ہیری نے کہا کہ میں آزاد رہنا چاہتا ہوں تاکہ اپنی مرضی کروں تو کہا گیا ٹھیک ہے جاؤ کرو اپنی مرضی لیکن وہ ساری مراعات ختم، اب خود کماو اور خود کھاؤ اور جو پیسہ پچھلے ایک سال میں اپنے گھر کی تزئین او آرائش پر لگایا ہے اس کو بھی واپس کرو۔
پاکستانی عورت کو بھی اپنا پریولجڈ لائف سٹائل چھوڑنا پڑے گا، ماں، بہن، بیوی، بیٹی سے نکل کر ایک انسان بننا ہو گا، پھر باقی سارے مطالبات اور اختیارات خود بخود مل جائیں گے۔ انڈیا اور بنگلادیش نے جو ترقی کی ہے وہ عورتوں کو کام پر لگا کر کی ہے، ہماری تو آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے، عورتیں جب تک کام نہیں کریں گی نہ تو خود مختاری ملے گی اور نہ ہی برابری اور نہ ہی ملک ترقی کرے گا۔ اس لیے عورت مارچ میں مکمل معاشی خود مختاری کا سلوگن اٹھائیں، عہد کریں کہ اب اپنے باپ، بھائی، خاوند، بیٹے کے پیسے پر عیاشی نہیں کریں گی، آپ کے باقی سارے مسائل خود حل ہو جائیں گے!